سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والے جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو عام کر دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں سانحے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا ہے۔
پانچ سو پچیس صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غداری کے سبب سیکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا اور دہشت گردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا جب کہ دہشت گردوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری ناقابلِ معافی ہے۔
سپریم کورٹ میں جمعے کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد کی ہلاکت کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
دورانِ سماعت متاثرہ بچوں کے والدین نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک ٹارگٹ کلنگ ہے۔ ساری عمر نیچے والوں کا احتساب ہوا، اس واقعے میں اوپر والے لوگوں کو پکڑا جائے۔
اس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اس کیس کو ہم چلائیں گے۔ ملک کا المیہ ہے کہ حادثے کے بعد صرف چھوٹے اہلکاروں پر ذمے داری ڈال دی جاتی ہے لیکن اب اس روایت کو ختم کرنا ہو گا۔
'سزا اوپر سے شروع کرنا ہوگی'
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "اٹارنی جنرل صاحب سن لیں یہ متاثرین کیا چاہتے ہیں۔ آپ کو سزا اوپر سے شروع کرنا ہو گی۔"
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کو سازش کی اطلاع ہونی چاہیے تھی، اتنی سیکیورٹی میں بھی عوام محفوظ نہیں۔ حکومت کو ایکشن لینا چاہیے کہ دوبارہ ایسے واقعات نہ ہوں۔
عدالت نے ہدایت کی کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ اور حکومت کے جواب کی کاپی شہدا کے والدین کو فراہم کی جائے۔ بعد ازاں سماعت ایک ماہ تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں کیا ہے؟
سانحہ 'اے پی ایس' پر پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد ابراہم خان نے جوڈیشل انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ کے حوالے کی تھی جسے عدالت نے جمعے کو پبلک کرنے کا حکم دیا۔
جوڈیشل انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سانحے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کئی سوالات بھی اٹھائے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دھمکیوں کے باوجود سیکیورٹی گارڈز کی کم تعداد اور درست مقامات پر عدم تعیناتی بھی نقصان کا سبب بنی۔
رپورٹ کے مطابق غفلت کا مظاہرہ کرنے والی یونٹ کے متعلقہ افسران و اہلکاروں کو سزائیں بھی دی گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سانحے کے روز دھماکوں اور شدید فائرنگ میں سیکیورٹی گارڈز جمود کا شکار تھے جب کہ دہشت گرد اسکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوئے۔ اگر سیکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی تو شاید اتنا جانی نقصان نہ ہوتا۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان سے دہشت گرد ممکنہ طور پر مہاجرین کے روپ میں داخل ہوئے اور غداری سے سیکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا جس کی وجہ سے دہشت گردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا۔ دہشت گردوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری ناقابلِ معافی ہے۔
جوڈیشل انکوائری کمیشن کا کہنا ہے کہ "اپنا ہی خون غداری کر جائے تو نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں۔ کوئی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کر سکتی بالخصوص جب دشمن اندر سے ہو۔"
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس واقعے میں گشت پر مامور سکیورٹی اہلکار دہشت گردوں کی جانب سے جلائی گئی گاڑی کی جانب گئے اور ان کی توجہ اس واقعے پر تھی۔ دہشت گردوں نے سیکیورٹی اہلکاروں کی توجہ ہٹانے کے لیے اس گاڑی کو آگ لگائی جس کے بعد گشت پر مامور دوسری ٹیم نے آکر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے کردار کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیکٹا نے عسکری مراکز، حکام اور ان کی فیملیز پر حملوں کا عمومی الرٹ جاری کیا۔ نیکٹا الرٹ کے بعد فوج نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ سانحہ اے پی ایس نے فوج کی کامیابیوں کو پسِ پشت ڈالا۔
عدالتی معاون کیا کہتے ہیں؟
اس کیس میں عدالت کی طرف سے مقرر کیے گئے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں والدین کا مطالبہ تھا کہ سیکیورٹی اداروں کی طرف سے یہ کہہ دینا کہ ہم نے ان افراد کو پکڑا یا ان افراد کو سزائیں دی گئیں، کافی نہیں ہے۔
اُن کے بقول ریاست کے اندر اتنا بڑا واقعہ ہوا اور جن ذمہ داران کی وجہ سے یہ واقعہ ہوا اُنہیں ذمہ دار کیوں نہیں ٹھیرایا جا رہا؟ اس معاملے پر عدالت نے آگے بڑھنے کا کہا ہے۔
امان اللہ کنرانی کے مطابق وہ جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد آئندہ کے لائحۂ عمل کے حوالے سے عدالت کی معاونت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ "ہماری کوشش ہے کہ اس سانحے میں جن والدین کو زخم پہنچے اُن پر مرہم رکھا جا سکے اور وہ اسی صورت ممکن ہے کہ تمام ذمہ داران انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں۔
اے پی ایس کمیشن کے ترجمان عمران اللہ نے رواں برس نو جولائی کو بتایا تھا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے کمیشن نے اپنی کارروائی مکمل کر لی اور سربمہر رپورٹ عدالت عظمیٰ کو بھیج دی ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
عمران اللہ کا کہنا تھا کہ کمیشن کی جانب سے سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین سمیت 132 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
کمیشن نے 101 گواہوں اور 31 پولیس، آرمی اور دیگر افسران کے بیانات بھی ریکارڈ کیے تھے۔
سانحہ 'اے پی ایس' کیا تھا؟
سولہ دسمبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے چھ دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کی کارروائی کرتے ہوئے طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس حملے میں اسکول کے معصوم بچوں اور اساتذہ کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب کہ دھماکے بھی ہوئے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔
سیکیورٹی فورسز نے حملے میں ملوث چھ دہشت گردوں کو ہلاک کیا جب کہ اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے اور سہولت کاروں کو گرفتار کرنے یا مارنے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔
اے پی ایس حملے کے بعض سہولت کاروں کو فوجی عدالت سے موت کی سزا بھی سنائی جا چکی ہیں۔
والدین کیا کہتے ہیں؟
سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے متاثرہ بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات پر اطمینان ہے کہ اس رپورٹ کو پبلک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ہم اپنے بچوں کو نہ بھولے ہیں اور نہ بھول سکتے ہیں۔
والدین کے بقول، ہمیں یقین ہے کہ کمیشن کی اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ان ذمہ داروں کا تعین ہو سکے گا جنہوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اس میں کئی بار تاخیر بھی کی گئی لیکن اب یہ رپورٹ پبلک ہو رہی ہے جس پر ہم مطمئن ہیں۔
اُدھر چیف جسٹس گلزار احمد نے رواں برس 16 دسمبر کو سانحے کی برسی کے موقع پر پشاور میں دعائیہ تقریب میں شرکت کی دعوت قبول کر لی۔