پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس)واقعے کے متاثرین نے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے ساتھ حکومتِ پاکستان کے جاری مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں جمعرات کو سانحہ آرمی پبلک اسکول کےمتاثرہ والدین نےواقعےمیں ہلاک ہونے والے طالب علم اسفند یار اجون کی والدہ شاہانہ اجون کی قیادت میں ایک پریس کانفرنس کی۔
اس دوران متاثرہ والدین نے کہا کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے مخالف نہیں ہیں لیکن اے پی ایس واقعےکے متاثرہ والدین کو اعتماد میں لیے بغیر مذاکرات کرنا پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ان کے بقول ٹی ٹی پی ان کے بچوں سمیت ہزاروں بے گناہ لوگوں کے قتل میں ملوث ہے۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014 کو حملہ کیا گیا تھا جس میں 132 بچوں سمیت 140 سے زائد افراد کی موت ہوئی تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔
مزید پڑھیے شمالی وزیرستان میں فورسز پر حملے، کیا 'حافظ گل بہادر' گروپ سرگرم ہوگیا ہے؟والدین نے کہا کہ واقعے میں ان کے بچے جان سے گئے ہیں اور انہیں ہی اعتماد میں لیے بغیر مذاکرات کیے جا رہے ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ حکومت سے اپیل ہے کہ اپنے عوام کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔
والدین نے واضح کیا کہ اگر انہیں اعتماد میں نہ لیا گیا تو وہ ان مذاکرات کی مخالفت کریں گے۔
متاثرہ ماؤں کی نمائندگی کرنے والی شاہانہ اجون نے کہا کہ متاثرہ والدین نے ان مذاکرات کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں 28 جون کو ایک درخواست بھی دائر کردی ہے اور وہ انصاف کے لیے پرامید ہیں۔
انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سےاپیل کی کہ وہ سپریم کورٹ میں موجود جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر فیصلہ صادر فرمائیں۔
شاہانہ اجون نے کہا کہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے دعوؤں کے باوجود حکومت کا کالعدم تنظیم کے سامنے گھٹنے ٹیکنا ایک المیہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ''یہ ملک22 کروڑ عوام کا ہے نہ کہ وزیرِِ اعظم، آرمی چیف یا لیفٹننٹ جنرل فیض حمیدکا۔ یہ ایک قومی نوعیت کا معاملہ ہے اور اسے منظر عام پر لانا چاہیے۔''
انہوں نے سوال کیا کہ کن شرائط پر کالعدم ٹی ٹی پی سے مفاہمت ہو رہی ہے؟ ساتھ ہی انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹی ٹی پی دوبارہ اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرم عمل ہو جائے۔
حکومتِ پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مصالحت کے لیے بات چیت کا سلسلہ اپریل کے اواخر میں سرحد پار افغانستان میں شروع ہوا تھا۔ جس میں افغان طالبان ثالث کا کردار ادا کررہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنوبی وزیرستان کے قبائلی جرگے کی معاونت سے شروع ہونے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کی جانب سے ابتدائی طور پر یکم مئی سے دس روز کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔ جس میں بعد ازاں توسیع بھی کی گئی تھی۔
ان مذاکرات کے سلسلے میں انٹرسروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ اور پشاور کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے سولہ مئی کو کابل کا دورہ کیا تھا۔ افغان طالبان اور تحریکِ طالبان پاکستان نے تصدیق کی تھی کہ فیض حمید مذاکرات کے سلسلے میں کابل آئے تھے اور اُن کی ٹی ٹی پی کی قیادت کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ البتہ حکومتِ پاکستان یا فوج نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا۔
اس دورے کے بعد قبائلی اضلاع سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 50 افراد پر مشتمل ایک جرگے نے دو روز تک ٹی ٹی پی کی قیادت اور مذاکراتی ٹیم سے بات چیت کی۔ اس دوران طالبان نے اپنے مطالبات اور شرائط پر مشتمل ایک میمورنڈم جرگے کے حوالے کیا تھا اور جنگ بندی میں غیرمعینہ مدت تک توسیع کا اعلان کیا تھا۔
ٹی ٹی پی کے مطالبات کیا ہیں؟
تحریکِ طالبان پاکستان نے مندرجہ ذیل مطالبات جرگے کے حوالے کیے ہیں۔
- ٹی ٹی پی کے قید جنگجوؤں کی رہائی
- تحریکِ طالبان پاکستان کے رہنماؤں پر درج مقدمات کا خاتمہ
۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کی سابق حیثیت کی بحالی
- قبائلی علاقوں سے فوج کا مکمل انخلا
- افغانستان سے ملحقہ اضلاع میں مخصوص فری زونز کا قیام
ٹی ٹی پی کے ان مطالبات پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
البتہ وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ یہ واضح کر چکے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور مصالحت پارلیمان کے فیصلوں کے مطابق ہوں گے۔
وزیرِ داخلہ کے اس بیان کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں اس بیان کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے مذاکرات کی منسوخی اور جنگ بندی کو ختم کرنے دھمکی دی ہے۔