پاکستان کی فضائی، بحری اور بری فوج کے سربراہان کی مدت ملازمت سے متعلق قانون سازی کے معاملہ پارلیمان سے منگل تک مکمل ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت اپوزیشن کے مطالبے پر تینوں بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھیجنے پر رضا مند ہو گئی ہے۔
اس سلسلہ میں حکومتی ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق حزب اختلاف کے دباؤ پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ تمام عمل کو قانون کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔
حکومت پیر کو آرمی، ایئر، نیول ایکٹس ترامیم کی منظوری قومی اسمبلی سے لے گی جبکہ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد تینوں بل سینیٹ میں پیش کیے جائیں گے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل سے متعلق تمام سیاسی جماعتوں میں مکمل اتفاق رائے پیدا کرنے اور چھوٹی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے وقت چاہیے تھا جس کے لیے اجلاس ملتوی کیا گیا ہے۔
حکومت دونوں ایوانوں سے آرمی ایکٹ ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور کرانا چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے دونوں ایوانوں میں بل پر بحث کا مطالبہ کیا ہے۔
حکومت بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیجنے پر تیار
اس سے پہلے حزب اختلاف نے تینوں بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو ارسال کرنے کی شرط رکھی تھی۔ جس پر حکومت قائمہ کمیٹی کو بھیجنے پر تیار ہوئی۔
حکومت نے قومی اسمبلی و سینیٹ کی مشترکہ پارلیمانی دفاعی کمیٹی کے نمائندوں کو دعوت دی تھی لیکن قانون کے مطابق یہ بل اب تک سینیٹ میں پیش نہیں ہوئے اور بل سینیٹ میں پیش ہونے کے بعد دفاع کی قائمہ کمیٹی کو بھجوانا ضروری ہے۔
حکومت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں بل بھجوائے گی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ہفتے ہونے والی ایوان کی کارروائی بھی پیر تک موخر کر دی گئی۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے بل کی منظوری کے دوران حصہ نہ لیا تو بھی حکومت با آسانی بل منظور کروا لے گی۔
'ہر رکن پارلیمان کو حق حاصل ہے کہ تجاویز دے'
وفاقی وزیر غلام سرور خان کہتے ہیں کہ کوئی بل جب اسمبلی میں لایا جاتا ہے تو ہر رکن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تجاویز دے سکتا ہے۔ ہر قائمہ کمیٹی میں بھی حزب اختلاف کے ارکان موجود ہوتے ہیں۔ یہ بات طے ہو چکی ہے اس پر لمبی بات نہیں کی جائے گی۔ زیادہ تر باتیں پہلے کی جا چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بل قائمہ کمیٹی سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ اب توسیع والے معاملے پر بے یقینی کی کیفیت ختم ہو جائے گی۔
ان کے بقول حزب اختلاف کی تجاویز میں شامل تھا کہ یہ سب کچھ عجلت میں نہ ہو۔ بحث کے بعد بل کو پاس ہونا چاہیے یہی وجہ ہے کہ اجلاس دوبارہ بلائے گئے۔ امید ہے یہ بل متفقہ طور پر پاس ہو جائیں گے۔
غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے بھارت کے نئے آرمی چیف نے سب سے پہلے پاکستان کو للکارا ہے۔
ان کے مطابق یہ تسلسل پچھلے سال کا ہے۔ جب بھی بھارت میں کوئی گڑ بڑ ہو رہی ہو تو کچھ نہ کچھ لائن آف کنٹرول پر لازمی ہوتا ہے۔
مسلم لیگ بل پر حکومت ساتھ دے گی؟
ہفتے کو قومی اسمبلی و سینیٹ کے اجلاس کی کارروائی موخر ہونے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے۔
صحافیوں سمیت مختلف افراد کی جانب سے تبصرے ہو رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اس قانون سازی سے لاتعلقی اختیار کرے گی اور خاموش رہے گی۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔ تاہم پارتی ذرائع بتاتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر مسلم لیگ (ن) کے اندرونی حلقوں میں شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور مسلم لیگ کو اپنے ووٹ بینک کا نقصان ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جس نے اس بیانیے پر تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے پارٹی کی حمایت کی۔
مبصرین کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی میں خاموش رہنے سے بل پاس ہونے میں کوئی دشواری نہ ہوگی لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ اس بل کو متفقہ طور پر پاس کروایا جائے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) نے اب تک اس بارے میں کوئی واضح اعلان نہیں کیا۔
'مشترکہ دفاعی کمیٹی میں بل پر ووٹنگ نہیں ہوئی'
مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے گزشتہ روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سینیٹ میں ابھی یہ بل پیش نہیں ہوا ہے۔ ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ نواز شریف کی طرف سے جو بھی ہدایت دی جائے گی اس پر عمل کیا جائے۔
ان کے بقول مشترکہ دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں اس بل پر کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی لہذا اسے متفقہ بل نہیں کہا جا سکتا۔
حکومت کی کوشش ہے کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) سمیت دیگر قوم پرست جماعتوں کے بھی تحفظات دور کیے جائیں۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے لیے صرف سادہ اکثریت درکار ہے پھر بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ بل تمام جماعتوں کی حمایت سے منظور ہوں۔
خیال رہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس آج ہونے تھے جس کا ایجنڈا بھی جاری ہو چکا تھا تاہم اب دونوں ایوانوں کے اجلاس پیر کو ہوں گے۔
جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کا ساتھ دینے سے انکار
آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) نے لاتعلق رہنے کا اعلان کیا ہے۔
جماعت اسلامی نے اس معاملے سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس قانون سازی سے مکمل طور پر لاتعلق رہیں گے۔
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جماعت اسلامی آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت نہیں کرے گی۔
جماعت اسلامی کے امیر نے پارلیمان کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اگر 64 سال کی عمر ریٹائرمنٹ کے لیے مقرر کی جاتی ہے تو یہ عمر تمام سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے لیے ہونی چاہیے کیونکہ سب کے لیے ایک نظام ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر تمام سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 64 مقرر نہیں ہو سکتی تو جو پہلے مقرر عمر ہے وہی سب کے لیے ہونی چاہیے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس جعلی اسمبلی اور جعلی حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اس قسم کی اہم قانون سازی میں حصہ لینا اس جعلی اسمبلی کوتسلیم کرنے کے برابر ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس بل کو اسمبلی میں لانے پر ہم مزاحمت کریں گے۔ اس جعلی اسمبلی کو یہ حق نہیں دے سکتے کہ وہ ایسی اہم قانون سازی کرے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے سقم دور کرنے کا کہا تھا لیکن مزید سقم پیدا کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ اس پر قانون سازی نہیں بلکہ آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کو غائب کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں جمہوری ماحول کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج دفاعی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ اور اس کا سربراہ غیرمتنازع ہے۔ ہم انہیں متنازع نہیں بنانا چاہتے۔ حکومتی اقدامات فوج کے ادارے اور قیادت کو متنازع بنا رہے ہیں لہذا ہم اس قانون سازی سے لاتعلق رہیں گے۔