آئی ایم ایف سے قرض: جنرل باجوہ کی امریکہ سے اثرو رسوخ استعمال کرنے کی درخواست

فائل فوٹو

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکہ سے اپیل کی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض کی قسط جلد دلوانے کے لیے امریکہ آئی ایم ایف پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے۔

جاپان کے ایک معروف اخبار نکی ایشیا کی ایک رپورٹ کے مطابق جنرل باجوہ نے امریکی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن سے درخواست کی ہے کہ ' آئی ایم ایف 'سے لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کے قرض کی منظوری کے لیے امریکہ پاکستان کی مدد کرے۔

وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ' آئی ایس پی آر 'نے جنرل باجوہ اور وینڈی شرمن کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والے رابطے کی تصدیق کی ہے۔ لیکن آئی ایس پی آر نے جنرل باجوہ اور دینڈی شرمن کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔ دوسری جانب امریکی محکمۂ خارجہ کی طرف سے بھی اس بارے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

جنرل باجوہ نے آئی ایم ایف سے قرض کے جلد حصول کے لیے واشنگٹن سے مدد کی درخواست ایک ایسے وقت میں کی ہے جب پاکستانی زرِمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں اور پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل اپنی قدر کھو رہا ہے ۔

یادر ہے کہ پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کی ٹیم کے درمیان 'اسٹاف لیول معاہدے پر اتفاق ہو چکا ہے جس کی منظوری اب آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے درکار ہے۔


عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کے ساتھ آئی ایم ایف کا اسٹاف لیول معاہدہ طے ہونے کے بعد عالمی مالیاتی ادارے کا ایگزیکٹو بورڈ اس معاہدے کی توثیق کر دیتا ہے۔ اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ کے اگست میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی منظوری دی جا سکتی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے جنرل باجوہ اور وینڈی شرمن کے درمیان ہونے والے رابطے کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے میں لگ بھگ 17 فی صد شیئرز کا حامل ہونے کی وجہ سے امریکہ کا آئی ایم ایف پر اثرورسوخ فیصلہ کن ہوسکتا ہے۔ ان کے بقول حکومتِ پاکستان کو توقع ہو گی کہ ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے پیشِ نظر امریکہ پاکستان کی مدد کرے۔

حفیظ پاشا نے اس توقع کا اظہار کیا کہ جنرل باجوہ کے امریکہ کی ایک اعلیٰ سفارت کار سے رابطے کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بھی بہتری آئے گی اور آئی ایم ایف کا پروگرم بحال ہونے کی صورت میں پاکستان کے دوست ممالک بھی پاکستان کی مالی معاونت کر سکتے ہیں۔

یادر رہے کہ پاکستان نے ماضی میں بھی، جب بھی پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا ہوا، کئی مرتبہ عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کیا ۔ حفیظ پاشا کہتے ہیں جب وہ پاکستان کے وزیر خزانہ تھے تو آئی ایم ایف کے حکام سے واشنگٹن میں ملاقات سے پہلے امریکہ کے وزیر خزانہ سے ملاقات کرتے تھے تاکہ آئی ایم ایف سے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو سکیں۔

یادر ہے کہ حال ہی میں پاکستان کے وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے بھی امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن سے واشنگٹن میں ملاقات کی تھی اور مبصرین اسلام آباداور واشنگٹن کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے رابطوں کو پاکستان امریکہ تعلقات کے لیے خوش آئند قرار دیتے رہے ہیں۔


پاکستان کے سابق سفارت کار علی سرور نقوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے سفارتی رابطوں کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

علی نقوی کہتے ہیں کہ امریکہ ایک عالمی طاقت ہے کئی معاملات میں امریکہ کی معاونت پاکستان کے لیے ضروری ہے۔ یادر ہے کہ امریکہ پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور علی نقوی کہتے ہیں کہ اقتصادیات ، تعلیم و صحت اور توانائی کے شعبوں میں پاکستان کو امریکہ کا تعاون حاصل رہا ہے۔

رواں سال اپریل میں وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت قائم ہونے کےبعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں میں اضافہ ہوا ہے۔

خطے میں امریکہ اور بھارت کی اسٹرٹیجک شراکت داری اور دوسری جانب پاکستان اور چین کےتعلقات کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کسی حد تک محدود ہو گئے ہیں۔ لیکن علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال کے باوجودامریکہ سے فعال تعلقات رکھنا پاکستان کے مفاد میں ہے اور اعلیٰ سطح کے باہمی ربطے اسی وجہ سے اہم ہیں۔

لیکن انہوں نے کہا کہ کہ پاکستان فوج کے سربراہ جنرل باجوہ کی وینڈی شرمن کےساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو اور وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی سے حال ہی میں ہونے والی ملاقات ایک اچھی پیش رفت ہے۔

سروری نقوی کہتے ہیں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کی راہ میں بعض مشکلات کے باوجود پاکستان اور امریکہ کےتعلقات بہتر ہونے کے وسیع امکانات موجود ہیں اور یہ رابطے باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے ایک ساز گار ماحول فراہم کریں گے۔