صحافی ارشد شریف قتل کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ انہیں کینیا میںاس کیس سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔
عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ارشد شریف قتل کیس کے اہم کردار خرم اور وقار کے ریڈ وارنٹس کے لیے انٹرپول سے رابطہ کر لیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ارشد شریف قتل کے معاملے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ارشد شریف کی اہلیہ، آئی جی پولیس اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان پیش ہوئے۔
کمرۂ عدالت میں جے آئی ٹی نے دوسری پیش رفت رپورٹ جمع کرائی۔
Your browser doesn’t support HTML5
سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے جے آئی ٹی سے استفسار کیا کہ جو کام آپ کے ذمہ لگایا تھا وہ ہوا یا نہیں؟ کینیا سے قتل کے متعلق کوئی مواد ملا ہے یا نہیں؟
اس پر جے آئی ٹی کے سربراہ ڈی آئی جی اویس احمد نے کہا کہ کینیا میں حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔
اس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کہانیاں نہ سنائیں، آپ کو شاید بات سمجھ نہیں آ رہی۔
اس پر سربراہ جے آئی ٹی اویس احمد نے کہا کہ کینیا نے شواہد تک رسائی نہیں دی۔ ارشد شریف قتل کے حوالے سے کینیا سے کوئی ٹھوس مواد نہیں ملا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ شواہد کی بات تو ٹرائل میں سامنے آئے گی مواد کیا جمع کیا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ ارشد شریف کے موبائل اور دیگر سامان کہاں ہے؟
Your browser doesn’t support HTML5
جس پر جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا کہ ارشد شریف کے موبائل اور آئی پیڈ کینیا کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے پاس ہیں۔ ارشد شریف کا باقی سامان موصول ہوچکا ہے۔
ایک موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ارشد شریف کیس سے متعلق دفترِ خارجہ اور جے آئی ٹی کی رپورٹس جمع کروا دی ہیں۔ دفترِ خارجہ کی رپورٹ میں ان کی معاونت کے حوالے سے تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات کے حوالے سے عبوری رائے دی ہے۔ جے آئی ٹی کی تفتیش ابھی جاری ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا میں سی آئی ڈی افسران سے ہمارے افسران نے ملاقات کی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ شواہد آپ کو ملے ہیں؟ آپ ہاں یا نہ میں بتائیں کہ کیا آپ کو شواہد ملے؟
اس پر جے آئی ٹی کے سربراہ نے تسلیم کیا کہ انہیں کینیا میں شواہد نہیں ملے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا کے ڈاکٹرز نے اپنی رپورٹ دی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کینیا نے پہلے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ بعد میں ایسا کیا ہوا کہ کینیا نے تعاون نہیں کیا؟ اس بارے میں دفتر خارجہ کھوج لگائے اور ریاست کو آگاہ کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں دو اہم پہلو ہیں ایک مقامی اور ایک خارجہ۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ارشد شریف کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کیس لیک ہوئی۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جس نے بھی لیک کی اس کا پتا کر کے بتائیں۔
اویس احمد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہمیں کرائم سین تک رسائی نہیں دی گئی۔ کینیا نے ہمارے ساتھ زیادہ تعاون نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کون سی ایسی ایجنسیاں ہیں جو ہماری مدد کر سکیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا نے ارشد شریف پر فائرنگ کرنے والے دو پولیس اہلکاروں کے خلاف تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔ کینین پولیس نے ذمہ پولیس اہلکاروں کے خلاف رپورٹ پبلک پراسیکیوٹر کو ارسال کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پتا کریں کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کرنے کے پیچھے کون ملوث تھا۔ ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بغیر تصدیق پبلک کر دی گئی۔ کسی نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جان بوجھ کر پبلک کی ہے۔ پاکستان میں تحقیقات میں غلطیاں ہوئی ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر کسی ملک سے تعلقات بہت اچھے نہ ہوں تو تحقیقات کے لیے تعاون کیسے حاصل کیا جاتا ہے؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہ عدالت جاننا چاہتی ہے کہ اسپیشل جے آئی ٹی کو اب تک کیا ملا ہے؟ اسپیشل جے آئی ٹی آئندہ کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی؟
انہوں نے مزید کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ آنے سے اب تک کچھ ایسا ہوا ہے کہ کینیا اب تعاون نہیں کر رہا۔ سپریم کورٹ ارشد شریف قتل کی تحقیقات کی سربراہی نہیں کر رہی۔
Your browser doesn’t support HTML5
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دفترِ خارجہ کو کینیا کے وزیرِ خارجہ نے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ یقین دہانی کے باوجود کینیا میں قتل کی جائے وقوعہ پر اسپیشل جے آئی ٹی کو کیوں جانے نہیں دیا گیا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا سے سفارتی تعلقات بھی قائم رکھنے ہیں یہ بیچیدہ معاملہ ہے۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ ارشد شریف قتل کے تین زاویے ہیں۔ ارشد شریف کو پاکستان سے بھاگنے پر کس نے مجبور کیا؟ کیا یہ تحقیقات ہوئیں کہ ارشد شریف کے خلاف ملک بھر میں مقدمات کس نے درج کرائے؟ کیا پتا لگایا گیا کہ ارشد شریف کو ایسا کیا دیکھایا گیا کہ وہ ملک سے باہر چلے گئے؟ جب تمام کڑیاں جڑیں گی تو خود ہی پتا چل جائے گا کہ ارشد شریف سے جان کون چھڑانا چاہتا تھا۔
عدالت نے ارشد شریف قتل پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کرتے ہوئے دو ہفتوں میں خصوصی جے آئی ٹی سے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ماہ کا وقت دیتے ہیں ارشد شریف قتل کیس میں کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں مکمل رپورٹ دیں۔ کینیا میں وکیل کریں اپنے قانونی حقوق کی معلومات لیں۔ جو کرنا ہے کریں لیکن حقائق تک پہنچیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ارشد شریف قتل کیس کے اہم کردار خرم اور وقار کے ریڈ وارنٹس کے لیے انٹرپول کو لکھ دیا ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی۔
صحافی ارشد شریف کو گزشتہ سال اکتوبر میں کینیا کے شہر نیروبی کے قریب پراسرار طور پر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ابتدا میں کینین پولیس کی طرف سے غلط شناخت کا معاملہ بتایا گیا تاہم بعد کی تحقیقات میں یہ چیز غلط ثابت ہوئی۔
پاکستان میں ان کی والدہ اور اہل خانہ نے اسٹیبلشمنٹ کے بعض افسران سمیت کچھ اعلیٰ حکام پر اس قتل میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے تھے۔ تاہم پاکستان کی فوج نے تمام الزامات کی تردید کی تھی۔