|
مصنوعی ذہانت کے استعمال نے جہاں تعلیم، تحقیق، ترقی اور صحت سمیت مختلف شعبوں میں تیز تر ترقی کی نئی راہیں کھولی ہیں وہیں تازہ ترین جائزوں کے مطابق مشینوں پر انحصار دنیا کے لیے نت نئے چیلنجز بھی پیدا کر رہا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ پر کام کرنے والے ماہرین مصنوعی ذہانت کو تاریخ کی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ٹیکنالوجی اور دنیا کی زیادہ سے زیادہ آبادی کو متاثر کرنے والا ایک بے مثال رجحان قرار دے رہے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق، دینا کے ترقی پذیر ممالک خاص طور پر ڈیجیٹل معیشت کے ذریعہ پہلے سے کئی زیادہ رفتار ترقی کر سکتے ہیں۔ تعلیم اور تحقیق کے شعبوں میں دور دراز علاقوں کے مکین بھی اعلی تعلیم اور ٹیکنالوجی کی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ پہلے ہی پاکستان، بھارت اور کئی دوسرے ملکوں میں لاکھوں نوجوان انٹرنیٹ کے ذریعہ نئے نئے پروگرام اور اپیس بنا کر اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبوں میں خدمات سے اپنا روز گار وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کا دارومدار الگورتھم، یعنی کمپیوٹر کے ذریعہ ریاضی کے قواعد استعمال کرنے کے سائنسدان محمد بن موسی الخوارزمی کے نام پر رکھے گئے مسائل کے حل کے طریقہ کار پر ہے۔
لیکن کیا دنیا نے اپنے آپ کو اے آئی مشینوں کے نظام کے لیے تیار کر لیا ہے؟ کیا تعلیم، زراعت اور صنعت میں ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار سے انسان کی کام کرنے اور سوچنے کی صلاحیتوں کو محدود کر رہا ہے؟ اور کیا سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال، عام لوگوں، عورتوں اور بچوں سمیت غیر محفوظ لوگوں کی ذاتی معلومات غلط ہاتھوں میں پہنچنے کے نتائج سے نمٹنے کے لیے حکومتیں اور معاشرے تیار ہیں؟
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کا کہنا ہے کہ جبکہ بڑے ترقیاتی نظاموں کی حفاظت، سیاست میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے غلط استعمال اور قانون پر عمل داری حکومتوں کا کام ہے، تاہم افراد کو صارفین کے حیثیت سے اور معاشروں کو مجموعی طور پر بھی انٹرنیٹ جیسے بڑے آن لائن سپر ہائی وے کے پلیٹ فارم کے استعمال کے بارے میں آگاہی کی ضرورت ہے۔
داراحلکومت واشنگٹن سے جڑی ریاست میری لینڈ کی "ٹاؤسن یونیورسٹی" میں "ماس کمیونیکیشن" کے اسسٹنٹ پروفیسر اور مصنوعی ذہانت اور معاشرے کے مسائل کے ماہر ڈاکٹر روف عارف کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط نہیں ہے کہ آج کے لوگ الگورتھم کے کسی حد تک غلام بنتے جارہے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ڈیجیٹل کمیونیکیشن کا انتہائی اہم موڑ ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ وہ افراد جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے وہ بھی الگورتھم کے استعمال سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
"ایلگورتھم کی بنیاد پر بنائے گئے پروگرام اور نظام اس طرح سے ترتیب دیے گئے ہیں کہ الگورتھم انسانی خواہشوں، ان کی پسند اور حتی کہ ان کے جذبات تک کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ "
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر روف عارف نے، جنہوں نے جدید کمیونیکیشن اور مصنوعی ذہانت کے موضوعات پر کتابیں اور مقالے لکھے ہیں، نوٹ کیا کہ جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ انسان الگورتھم کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہیں ایلگورتھم اتنے ہی ذہین ہوتے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ افراد کا ان پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔
"ہم ایسے معاشرے کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں لوگوں کی حالت الگورتھم کے غلاموں کی سی ہو سکتی ہے۔"
ڈیٹا اور کاروبار میں ذہانت پر کام کرنے والی کمپنی "اسٹیٹسٹا" کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 5.44 ارب انٹرنیٹ صارفین ہیں۔
ڈاکٹر عارف کے مطابق اس طرح تقریبا 70 فیصد کے قریب لوگ انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں جن میں سے اوسطاً ہر صارف روزانہ 6.35 گھنٹے انٹرنیٹ سے جڑی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتا ہے۔
ان کے بقول یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اگرباقی کے تقریباً 30 فیصد لوگ بھی آن لائن ہوجائیں تو ایلگورتھم کتنے ذہین ہوجائیں گے۔
SEE ALSO: بھارتی انتخابات میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمالپہلے ہی، ان کے مطابق انسانوں اور مصنوعی ذہانت کے کام کرنے کی رفتار میں فرق بڑھتا چلا جارہا ہے۔
انسان ایک منٹ میں 800 الفاظ پروسس کرتے ہیں. اس کے مقابلے میں "چیٹ جی پی ٹی" کی حریف "کلاڈ اے آئی" نامی مصنوعی ذہانت سے چلنے والا چیٹ بوٹ کے پاس ایک منٹ میں 75،000 الفاظ پروسس کرنے کی صلاحیت ہے۔
"اگر انسان آرٹیفشل انٹیلی جینس پر اپنا انحصار بڑھاتا جائے گا تو اس کی کریٹیکل تھنکینگ یعنی تنقیدی جائزہ لینے والی سوچ کم سے کم ہونے کا خطرہ ہوگا۔ اور ہم جانتے ہیں کہ اگر چیزوں کو تنقیدی سوچ سے پرکھنے کی صلاحیت ختم ہوجائے تو آزادی ختم ہو جاتی ہے۔"
لہذا جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اگرچہ کم وقت کے خرچ کے لحاظ سے پر کشش ہے اس کے اندر خطرات بھی پوشیدہ ہیں۔
واشنگٹن میں قائم "انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ انوویشن فاونڈیشن" کی سینیئر پالیسی مینیجر ہودان عمر مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی افادیت پر زور دیتی ہیں۔
SEE ALSO: آسٹریلیا: اسمارٹ فون کے ذریعے فالج کی تشخیصوائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تعلیم اور تحقیق میں مصنوی ذہانت کا استعمال بہت سا وقت بچاتا ہے اور طلبا اور ماہرین تعلیم کے شعبے میں اس سے بہتر طور پر کام کرتے ہیں۔
انہوں نے اس بات سے اختلاف کیا کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبا دیتا ہے۔
"لوگ آزاد ہیں کہ وہ تنقیدی سوچ کو برقرار رکھ سکیں۔"
وہ کہتی ہیں کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں ٹیکنالوجی کے استعمال کا متبادل کیا ہے۔ موجودہ دور میں اگر لوگ تحقیق کے لیے روایتی انداز میں مختلف جگہوں پر جا کر بہت سی کتابیں پڑھیں گے تو ان کا بہت سا وقت صرف ہو گا۔
سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے ہودان عمر یہ نشاندہی کرتی ہیں کہ ایلگورتھم کے ذریعہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا استعمال اور سوشل میڈیا کا نشے کی حد تک عادت ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ: آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے کنٹرول ہونے والے ایف سولہ طیارے کی اڑانجہاں تک صارفین کی ذاتی معلومات کا تعلق ہے تو ہودان عمر کہتی ہیں کہ امریکہ میں اس سلسلے میں ایک جامع "فیڈرل پرائیویسی لا" یعنی قانون کی ضرورت ہے جس پر سوشل میڈیا اور دوسری ٹیکنالوجی کمپنیاں عمل کریں۔
وہ بچوں کے حوالے سے انٹرنیٹ استعمال کرنے کے تحفظات کے بارے میں کہتی ہیں کہ اس معاملے پر والدین اور معاشرے کو اہم کردار ادار کرنا ہوگا۔
وہ کہتی ہیں کہ تمام صارفین کو انٹرنیٹ جیسے بڑے پلیٹ فارم کے لیے گائیڈ لائنز سے آگاہ ہونا چاہیے۔
ان کے بقول تاریخ میں یہ ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کوئی نئی چیز ایجاد ہوتی ہے تو اس وقت کی نسل اس کے ممکنہ منفی اثرات کے بارے میں خوفزدہ ہوجاتی ہے۔ ماضی کے "مورل پینک" کے بعد آج کل "ٹیک پینیک" کے بارے میں بات ہوتی ہے۔
ٹیکنالوجی کے بارے میں پائے جانے والے خدشات کے بارے میں ہودان عمر کے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر رابرٹ ایٹکنسن نے نے "ٹیکنالوجی فیئرز اینڈ اسکیپ گوٹس" کے نام سے اس سال ایک کتاب بھی شائع کی ہے۔
SEE ALSO: دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا استعمال؛ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟کتاب میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس، کام کے مواقع، جدیت پر مبنی معیشت اور پرائیویسی کے متعلق عام طور پر پائے جانے والے تاثرات کے بارے میں غلط فہمیوں پر روشنی ڈالی گئ ہے۔
ٹیکنالوجی کے بجائے خود مہلک نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہودان عمر نے کہا کہ حد سے زیادہ خوف حد سے زیادہ ردعمل کا باعث بنتا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ میں ٹیکنالوجی کے شعبے پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھنے والی پالیسی کی ماہر نے زور دیا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلقہ مسائل کو مختلف اور ان کے صحیح تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔