ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث خطرات سے دو چار ملک توالو اور آسٹریلیا کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طے پایا ہے۔ معاہدے کے تحت اگر توالو کے لوگ سطحِ سمندر میں اضافے کے باعث اپنے وطن سے محروم ہوجاتے ہیں تو انہیں آسٹریلیا میں رہائش کی اجازت ہوگی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجز دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کے لیے کس طرح سنگین خطرات پیدا کررہے ہیں۔
ماہرین یہ خطرہ ظاہر کرچکے ہیں کہ درجۂ حرارت میں اضافے کے باعث سطحِ سمندر میں اضافے سے جزیروں پر مشتمل کئی ممالک سمندر برد ہوسکتے ہیں۔
آسٹریلیا اور توالو کے وزرائے اعظم نے جمعے کو اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اگر توالو کے بارے میں سنگین ترین خدشات درست ثابت ہوتے ہیں تو اس کے 11 ہزار رہائشیوں کو آسٹریلیا میں پناہ دی جائے گی۔
توالو دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جن کا وجود ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سطحِ سمندر میں اضافے کے سبب خطرے سے دو چار ہے۔
توالو جنوبی بحر الکاہل میں جزائر پر مشتمل ایک آزاد ریاست ہے۔ توالو کے نو میں سے دو جزائر پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بلند ہونے والی سطحِ آب کی وجہ سے سمندر برد ہوچکے ہیں۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آئندہ 80 برسوں میں توالو کے اکثر جزائر ناقابلِ رہائش ہو جائیں گے۔
توالو کے وزیرِ اعظم کاوسی نتانو نے اس معاہدے کو اپنے ملک کے لیے ’امید کی کرن‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے میں کی گئی پیش کش نے ان کی قوم کے دل کو چھو لیا ہے۔
آسٹریلیا اور توالو کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق توالو کے شہری آسٹریلیا میں تعلیم اور ملازمت کے مجاز ہوں گے۔ اس کے علاوہ ان شہریوں کو آسٹریلیا کے صحت و تعلیم کے شعبوں تک رسائی ہوگی۔
اس کے ساتھ ہی معاہدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ترکِ وطن کرکے توالو سے جو خاندان آسٹریلیا پہنچیں گے انہیں آسٹریلوی حکومت کی جانب سے ابتدائی طور پر مالی مدد بھی دی جائے گی۔
SEE ALSO: دنیا میں کہاں کہاں بادشاہت سلامت ہے؟پناہ گزینوں سے متعلق قوانین کے ایک ماہر جین مک ایڈم نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے اس معاہدے کو ’نیا آغاز‘ قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث نقل مکانی سے متعلق یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ ہے۔ اکثر لوگ اپنے گھروں اور آبائی علاقوں، زمین اور سمندر سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں اگر وہ ترکِ وطن پر مجبور ہوتے ہیں تو ایسے معاہدے ان کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
توالو سے بڑی تعداد میں آبادی کی فوری منتقلی روکنے کے لیے ابتدائی طور پر آسٹریلیا نے سالانہ 280 شہریوں کو اپنے ملک میں منتقل ہونے کی حد مقرر کی ہے۔
اس سے قبل نیوزی لینڈ نے بھی بحر الکاہل میں واقع جزیروں پر مشتمل ممالک کو ’کلائمٹ ویزا‘ جاری کرنے کی تجویز دی تھی تاہم بڑے پیمانے پر تارکینِ وطن کی آمد پر تحفظات کے باعث اس تجویز کو پذیرائی نہیں ملی تھی۔
دنیا کے نقشے سے ختم ہونے والے ملک
ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سمندر ی جزائر پر مشتمل مالدیب یا توالو جیسے ممالک کے دنیا کے نقشے سے غائب ہونے کے خطرات محض قصہ کہانی نہیں رہے ہیں۔
گزشتہ برس شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی ماہرین کا کہنا تھا کہ 1900 کے بعد سے سطحِ سمندر میں 15 سے 25 سینٹی میٹر اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ اضافہ تیزی سے جاری ہے ، خاص طور پر ٹراپکل خطوں میں اضافے کی شرح زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر سطحِ سمندر میں اضافے کی حالیہ شرح برقرار رہی تو رواں صدی کے اختتام تک بحر الکاہل اور بحر ہند کی سطح میں تقریباً ایک میٹر کا اضافہ ہوجائے گا۔
SEE ALSO: برطانوی بادشاہ کی تاج پوشی میں ’کوہِ نور‘ کیوں شامل نہیں ہوگا؟اس اضافے کے ساتھ ساتھ طوفانوں کی شدت اور لہروں کی بلندی میں بھی اضافہ ہوگا۔
ان اسباب کی وجہ سے اکثر جرائر کی زمین اور وہاں موجود تازہ پانی کے ذخائر نمکیات سے آلودہ ہونے سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ اس لیے سمندر برد ہونے سے پہلے ہی یہ علاقے انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں پر اقوامِ متحدہ کے بین الحکومتی پینل کی 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق مالدیپ، توالو، دی مارشل آئی لینڈز، نورو اور کربتی ایسے پانچ ممالک ہیں جو سن 2100 تک ناقابلِ رہائش ہوجائیں گے اور اس کے نتیجے میں چھ لاکھ افراد بے گھر ہی نہیں بلکہ بے وطن بھی ہو جائیں گے۔
بحر الکاہل میں واقع ماحولیاتی خطرات سے دو چار کئی ممالک نے گزشتہ برس ستمبر میں ’رائزنگ نیشن‘ انیشی ایٹو کا آغاز کیا تھا۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔