ملکۂ برطانیہ الزبتھ دوم کے انتقال کے بعد برطانوی سلطنت اور بادشاہت کی تاریخ دنیا بھر میں زیرِ بحث ہے۔اگرچہ گزرتے وقت کے ساتھ کئی بڑی سلطنتیں قصۂ پارینہ ہوچکی ہیں لیکن اب بھی دنیا کے کئی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں طویل تاریخ رکھنے والے شاہی خاندان اور بادشاہتیں سلامت ہیں۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد کئی بڑی سلطنتیں ان خطوں تک سمٹ گئیں جہاں سے ان کا آغاز ہوا تھا۔ انہیں میں سے ایک سلطنتِ عثمانیہ بھی تھی۔ گزشتہ صدی میں فرانس اور برطانیہ کی نوآبادیات میں بھی آزادی کی کئی تحریکیں آزادی سے ہم کنار ہوئیں۔ اس دور میں افریقہ اور ایشیا میں 1945 سے 1960 کے درمیان نوآبادیاتی طاقتوں کو شکست دے کر 35 سے زائد نئی ریاستیں قائم ہوئیں۔
سلطنتوں اور نوآبادیات سے آزاد ہونے والی سبھی ریاستوں میں جمہوریت قائم نہیں ہوئی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے پیدا شدہ حالات اور ماضی کی روایات کے زیرِ اثر عرب دنیا میں کئی خاندانی بادشاہتیں قائم ہوئیں۔ اس کے علاوہ بھی دنیا میں کئی ایسی بادشاہتیں اور شاہی خاندان ہیں جو صدیاں گزرجانے کے باجود اپنا وجود کسی نہ کسی شکل میں برقرار رکھے ہیں۔
دنیا کی آبادی ، نظامِ سیاست اور دیگر شعبوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے والی غیر سیاسی تنظیم ’ورلڈ پاپولیشن ریویو‘ کے مطابق اس وقت بھی دنیا میں 26 خاندانی بادشاہتیں ہیں جن کے تحت لگ بھگ 38 ممالک اور خطے آتے ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ شہرت برطانیہ کے شاہی خاندان کو حاصل ہے۔
دنیا میں موجود بعض شاہی حکمرانوں کو صرف اعزازی حیثیت حاصل ہے یا وہ کسی آئینی دائرے ہی میں اختیارات کا استعمال کرتے ہیں۔ جہاں انتظامی اختیارات منتخب اداروں کو منتقل کردیے گئے ہیں، انہیں آئینی بادشاہتیں کہا جاتا ہے۔ اس کی سب سے معروف مثال برطانیہ ہے۔
لیکن دنیا میں ایسی بادشاہتیں بھی ہیں جہاں اب بھی قدیم روایت کے مطابق شاہی خاندان کے پاس تمام اختیارات ہیں۔ مختلف اختیارات اور کاروبارِ ریاست میں مختلف حیثیت کے حامل شاہی خاندانوں کے بارے میں چند دلچسپ حقائق یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔
دنیا کی قدیم ترین بادشاہت
جاپان کو دنیا کی قدیم ترین بادشاہت قرار دیا جاتا ہے۔ جاپانی روایات کے مطابق شہنشاہ جمو نے 660 قبلِ مسیح میں بادشاہت کی بنیاد رکھی تھی۔ اس اعتبار سے یہ بادشاہت ساڑھے 2600 سال سے برقرار ہے اور ایک ہی خاندان میں چلی آرہی ہے۔
بعض مؤرخین جاپان کے شاہی خاندان کی ابتدا اور اس کے بارے میں درست دن اور تاریخ معلوم ہونے کے دعوؤں کو محض افسانہ بھی قرار دیتے ہیں۔ البتہ جاپان میں سرکاری طور پر 11 فروری 660 قبلِ مسیح کو بادشاہت کے آغاز کا دن قرار دیا گیا ہے۔
اس طویل دورِ حکمرانی میں جاپان کے شاہی خاندان نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان کو سیاسی نظام میں کئی تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ لیکن جب 1947 میں جاپان کا نیا آئین بنایا گیا تو اس میں نظامِ حکومت سے بادشاہت کا عمل دخل ختم کردیا گیا۔ البتہ شاہی حکمرانی کی اعزازی حیثیت برقرار رکھی گئی۔
شہنشاہ جمو کے بعد سے اب تک ان کے 126 وارث تخت نشین ہوچکے ہیں۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں نسل در نسل منتقل ہوتی بادشاہت اب خاتمے کے خطرے سے دوچار ہے۔ جانشینی کے لیے شاہی خاندان کی روایات اور جاپان میں آئین سازی کے بعد عائد ہونے والی پابندیاں اس کی بنیادی وجہ ہیں۔
جاپان کے شاہی خاندان میں صرف مرد ہی جانشین بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ شاہی خاندان سے باہر شادی کرنے والے مرد و خواتین شاہی خاندان سے بے دخل تصور ہوتے ہیں اور ان سے شاہی خطابات و اعزازات بھی واپس لے لیے جاتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان کے بنائے گئے آئین میں بادشاہ پر ایک سے زائد شادیاں کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اسی طرح کوئی مرد وارث نہ ہونے کی صورت میں شاہی خاندان کی کسی بھی شاخ سے لڑکا گود لے کر اسے اپنا جانشین بنانے کی قانونی حیثیت بھی ختم کردی گئی تھی۔ ان کڑی روایات اور پابندیوں کی وجہ سے جاپان کا شاہی خاندان رفتہ رفتہ محدود ہوتا چلا گیا۔
اس وقت جاپان کے بادشاہ ناروہتو کے ولی عہد ان کے بھتیجے فومی ہیتو ہیں۔ ولی عہد کے اکلوتے بیٹے شہزادہ ہسا ہیتو ہیں جن کی عمر صرف 16 برس ہے۔ اگر شہزادہ ہساہیتو کے ہاں مستقبل میں نرینہ اولاد نہیں ہوتی تو 26 سو سال سے زائد ایک ہی خاندان میں جاری اس بادشاہت کا تسلسل ٹوٹ جائے گا۔ اس لیے جانشینی کے قواعد میں تبدیلی اور اس خاندانی تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے جاپان میں گزشتہ کئی برسوں سے بحث جاری ہے۔
عورت سے شروع ہونے والی بادشاہت
کمبوڈیا میں 68 سن عیسوی سے قائم ہونے والی بادشاہت کئی اعتبار سے منفرد ہے۔ دنیا کے بیشتر شاہی خاندانوں کی بنیاد کسی مرد نے ڈالی ہے۔ لیکن کمبوڈیا میں بادشاہت کا آغاز ملکہ سوما نے کیا تھا۔ اس کے بعد دو ہزار سال سے زائد عرصے سے یہ بادشاہت جاری ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا کے اس ملک میں 1970 سے 1993 تک بادشاہت معطل رہی تھی البتہ 1993 میں اس کا پھر احیا ہوگیا تھا۔
سن 1993 میں آئین کی تشکیل کے بعد کمبوڈیا دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی ’انتخابی بادشاہت‘ بن گئی۔ آئین میں دیے گئے طریقۂ کار کے مطابق ’رائل کونسل آف تھرون‘ بادشاہ آن دوانگ کے شاہی خاندان کی دو شاخوں نورودوم اور سسوواتھ میں سے کسی کو بادشاہ منتخب کرتی ہے۔
اس کونسل میں ملک کے نمایاں سیاسی اور مذہبی رہنما شامل ہوتے ہیں۔ تختِ شاہی کے امیدوار کی عمر کم از کم 30 برس ہونا ضروری ہے اور بادشاہ کو تاحیات منتخب کیا جاتا ہے۔
آئین کے مطابق شاہی حکمران صرف قومی وحدت کی علامت ہے لیکن اسے انتظامی اور حکومتی امور سے متعلق کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
عرب دنیا کی قدیم ترین بادشاہت
مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی 22 عرب ریاستوں میں سے 8 ممالک - عمان، مراکش، اردن، سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارت میں خاندانی بادشاہتیں اور شاہی حکومتیں قائم ہیں۔
عرب ریاستوں میں زیادہ تر بادشاہتیں گزشتہ دو تین صدیوں کے دوران قائم ہوئی ہیں۔ تاہم عمان کی بادشاہت کا سلسلہ 751 عیسوی سے جاری ہے جو مختلف خاندانوں میں منتقل ہوتی رہی ہے۔ اس اعتبار سے عمان عرب دنیا کی سب سے قدیم بادشاہت ہے۔
اس بادشاہت کی بنیاد الجلندی بن مسعود نے رکھی تھی۔ ابتدا میں اسے بادشاہت کے بجائے ’امامت‘ کہا جاتا تھا۔ 1749 میں برسرِ اقتدار آنے والے السید خاندان نے اسے سلطنت میں تبدیل کردیا۔ اس کے بعد سے عمان کے حکمران کو سلطان کہا جاتا ہے۔
عمان میں مکمل بادشاہت کا نظام نافذ ہے اور سلطنتِ عمان دنیا کی ان گنی چنی بادشاہتوں میں سے ہے جہاں آج بھی سلطان کو تمام اختیارات حاصل ہیں۔ یہاں تمام سیاسی و انتظامی اختیارات کا مرکز بادشاہ ہے۔
اگرچہ عمان میں مجلسِ شوریٰ اور مجلس دولۃ (اسٹیٹ کونسل) جیسے قانون ساز ادارے بھی موجود ہیں اور ان کے ارکان کے انتخاب کا طریقۂ کار بھی وضع کیا گیا ہے۔ تاہم اب بھی قانون سازی میں سلطان کی رائے ہی حرفِ آخر ہے۔
ماضی میں عمان کی بادشاہت سلطان کے بڑے بیٹے کو منتقل ہوتی رہی ہے۔ تاہم بعد میں عمان کے دستور میں جانشینی کا طریقہ بھی بیان کردیا گیا۔ سابق فرماں روا سلطان قابوس کم و بیش 50 برس تک حکمران رہے۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔
سلطنت عمان کے دستور میں بتائے گئے طریقۂ کار کے مطابق سلطان کی موت کے تین دن کے اندر شاہی کونسل کو نئے سلطان کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اور کسی نام پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں ملک کی دفاعی کونسل، سپریم کورٹ ، مجلسِ شوریٰ اور مجلس دولۃ کے سامنے وہ مہر بند لفافہ کھولا جائے گا جس میں سلطان قابوس نے اپنے جانشین کو نامزد کیا تھا۔ اسی طریقۂ کار کے مطابق سلطان قابوس کے چچا زاد ہیثم بن طارق جنوری 2020 میں عمان کے سلطان بنے۔
سلطان ہیثم نے 2021 میں جانشینی کے لیے طریقۂ انتخاب میں ترمیم کی جس کے مطابق سلطان کے بڑے بیٹے کی بطور ولی عہد تقرری کا آغاز ہوا۔ اسی طرح ولی عہد کے سلطان بننے کے بعد ان کا بڑا بیٹا ولی عہد قرار پائے گا۔ اس ترمیم کے ساتھ ہی سلطان ہیثم بن طارق نے اپنے بڑے بیٹے ذی یزن بن ہیثم کو عمان کا ولی عہد مقرر کر دیا ہے۔ اس تبدیلی کے بعد اب عمان کی سلطانی نسل در نسل السید خاندان ہی میں رہے گی۔
عرب دنیا میں قائم دیگر بادشاہتیں بھی خاندانی حکمرانی کے اصول پر قائم ہیں۔ تاہم ان میں سعودی عرب کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس کا نام حکمران خاندان ’آلِ سعود‘ کے نام سے منسوب ہے۔
مراکش میں آٹھویں صدی سے جاری بادشاہت
آبادی کے اعتبار سے چوتھے بڑے عرب ملک مراکش میں بھی صدیوں سے بادشاہت کا نظام موجود ہے۔ تاہم یہاں تختِ شاہی مختلف ادوار میں مختلف خاندانوں کے پاس رہا ہے۔
مراکش میں ادریس بن عبداللہ نے اولین بادشاہت 788 عیسوی میں قائم کی تھی جو 971 تک برقرار رہی۔ اس کے بعد 1666 میں یہاں علوی خاندان کی حکومت قائم ہوئی جس نے 1957 میں فرماں روا کے لیے شاہ کا خطاب مختص کر دیا۔ اس سے قبل حکمران کے لیے سلطان اور دیگر خطابات بھی استعمال ہوتے رہے۔
موروکو یا مراکش میں دستوری بادشاہت ہے۔ وہاں جمہوری طور پر پارلیمنٹ منتخب کی جاتی ہے البتہ ابھی بھی وہاں بادشاہ کو انتظامی اور حکومتی اختیارات حاصل ہیں۔ اس کے علاوہ بادشاہ مذہبی، دفاعی اور خارجہ امور پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ یہاں علوی خاندان کے مرد ورثا کو حکومت منتقل ہوتی ہے اور بادشاہ کا بڑا بیٹا اس کی جانشینی کا اولین حق دار ہوتاہے۔ سن 1999 سے محمد ششم مراکش کے بادشاہ ہیں۔
مراکش کے علاوہ بھی برِاعظم افریقہ میں دو اور ملکوں - اسواتینی اور لیسوتھو میں بھی بادشاہتیں موجود ہیں۔
سب سے معروف بادشاہت
ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق دنیا کے 26 شاہی خاندانوں میں سے 12 یورپ میں ہیں۔ ان میں سب سے معروف بادشاہت سلطنتِ برطانیہ کی ہے۔
ایک دور تھا کہ اس سلطنت کی وسعت ضرب المثل تھی اور کہا جاتا تھا کہ سلطنتِ برطانیہ پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ بادشاہت برطانیہ کے جزائر تک محدود رہ گئی۔ البتہ اعزازی طور پر آج بھی برطانوی فرماں روا آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا سمیت دنیا کے 15 ممالک اور خطوں کا سربراہِ مملکت ہے۔اس کے علاوہ 56 ممالک اور خطوں پر مشتمل دولتِ مشترکہ کی تنظیم کی سربراہی بھی برطانوی شاہی حکمران کے پاس ہے۔
یورپ کے مغرب میں آج جہاں برطانیہ ہے، اس علاقے میں چوتھی صدی قبلِ مسیح تک رومی سلطنت قائم تھی۔ رومیوں کے اس خطے سے جانے کے بعد یہاں بسنے والے اینگلو سیکسن باشندوں نے مختلف سلطنتیں قائم کیں۔ ان میں 871 سے 899 عیسوی تک شاہ الفریڈ اعظم کی حکومت کو پہلی برطانوی بادشاہت قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن برطانیہ میں قائم مختلف ریاستوں کو پہلی مرتبہ 1066 میں ولیم فاتح نے متحد کرکے اپنی بادشاہت قائم کی۔
برطانیہ کا موجودہ شاہی خاندان اسی ولیم فاتح کی اولاد ہے جسے ’ہاؤس آف ونڈسر‘ کہا جاتا ہے۔ رواں ماہ دنیا سے رخصت ہونے والی الزبتھ دوم اس خاندان میں طویل ترین عرصے تک تخت نشیں رہنے والی سربراہ تھیں۔
برطانیہ میں بادشاہت نے 1215 میں ہونے والے میگنا کارٹا معاہدے کے بعد بتدریج اپنے اختیارات سے دست برداری اختیار کرنا شروع کی اور بالآخر برطانیہ میں بادشاہت کی حیثیت اب علامتی ہو چکی ہے۔
سب سے ’چھوٹا‘ ملک
یورپ میں اٹلی کے شہر روم کے اندر قائم شہری ریاست ویٹی کن نہ صرف کیتھولک چرچ کا مرکز ہے بلکہ اسے رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بھی دنیا کا سب سے چھوٹا ملک قرار دیا جاتا ہے۔ ویٹی کن سٹی پر کیتھولک چرچ کے سربراہ پوپ ہی حکمران ہوتے ہیں۔ یہ ایک مطلق العنان حکومت ہے لیکن اس میں بھی حکمرانی وراثت میں منتقل نہیں ہوتی بلکہ پوپ کے انتقال یا تبدیلی کی صورت میں نئے پوپ اس کے حکمران بن جاتے ہیں۔
نو خاندانوں کی بادشاہی
ایشیا میں عرب ملکوں کے علاوہ جاپان، بھوٹان اور تھائی لینڈ سمیت کئی اور ملکوں میں بھی بادشاہتیں ہے۔ تاہم ان میں ملائیشیا میں قائم شاہی حکومت کا نظام سب سے منفرد ہے۔
بنیادی طور پر ملائیشیا میں آئینی بادشاہت قائم ہے۔ یہاں ایک وفاقی آئین اور پارلیمنٹ بھی ہے۔ یہاں اسلام قبول کرنے والے مقامی حکمران اسکندر شاہ نے 1402 میں ملاکا سلطنت کی بنیاد رکھی تھی جو 12 برس ہی قائم رہ سکی۔
اس کے بعد ملائیشیا نے پرتگیزیوں، جاپان اور برطانیہ کے حملے اور نو آبادیاتی دور بھی دیکھے۔ اس دوران وہاں مقامی حکمرانوں کی مختلف ریاستیں وجود میں آئیں جو بعد میں شاہی خاندانوں کی شکل اختیار کرگئیں۔ 1957 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد یہاں نو شاہی خاندانوں کی ایک مشترکہ بادشاہت قائم ہو گئی۔
یہ نو شاہی خاندان اپنی اپنی ریاستوں کے حکمران ہیں اور اپنی ریاست کی سطح پر ان کی بادشاہت نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ لیکن ملائیشیا کے فرماں روا کے لیے ان نو شاہی خاندانوں کی ’کانفرنس آف رولرز‘ پانچ برس کے لیے ملک کے بادشاہ کا انتخاب کرتی ہے۔
ملائیشیا میں بھی بادشاہ براہِ راست سیاست میں ملوث نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں انتظامی سطح پر کوئی اختیار حاصل ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم سے حلف لینے اور بعض صورتوں میں شاہی معافی جاری کرنے کا اختیار بھی بادشاہ کو حاصل ہوتا ہے۔
ملائیشیا میں بادشاہ کی ذمے داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کو فروغ دے گا۔ اس اعتبار سے ملائیشیا کی بادشاہت منفرد ہے کہ یہاں شاہی حکمران خود بھی منتخب ہوتا ہے اور جمہوریت کا فروغ بھی اس کی ذمے داری ہوتی ہے۔
عام طور پر منتخب ہونے والا بادشاہ اپنی مدت پوری کرتا ہے۔ لیکن 2019 میں بادشاہ محمد پنجم منصب سے دست بردار ہونے والے ملک کے پہلے فرماں روا تھے۔ محمد پنجم ملائیشیا کی فیڈریشن میں شامل کیتلان ریاست کے حکمران تھے۔بادشاہت سے دست برداری سے قبل شاہ محمد پنجم نومبر 2018 میں رخصت پر چلےگئے تھے جس کے بعد ان کی سابق مس ماسکو اوکسانا سے مبینہ شادی کی اطلاعات اور تصاویر سامنے آئی تھیں۔
ملائشین اور عالمی میڈیا میں اس بارے میں قیاس آرارئیاں سامنے تو آئیں کہ روسی ملکۂ حسن سے شادی کی اطلاعات کے بعد محمد پنجم کی تخت سے دست برداری کا فیصلہ دراصل ملک کے دیگر شاہی خاندانوں کی’ بادشاہت کا وقار برقرار رکھنے کی کوششوں‘ کا نتیجہ تھا۔
ملائیشیا میں بادشاہ کو ’یانگ دی پرتوان اگونغ‘ کہا جاتا ہے جس کا مفہوم ہے ’وہ جسے سربراہ بنایا گیا۔' اس وقت ملائیشیا میں ریاست پاہانگ کے بادشاہ عبداللہ تخت نشین ہیں۔