بھارت کے پروجیکٹ ٹائیگر کے 50 برس مکمل، متاثرہ قبائل حقوق کے لیے سراپا احتجاج

فائل فوٹو

بھارت کے جنوبی شہر میسور میں چیتوں کی نسل کو تحفظ دینے کے لیےمسکن بنائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے پانچ دہائیاں قبل ’پروگرام ٹائیگر‘ شروع کیا گیا تھا۔ اب وزیرِ اعظم نریندر مودی اس منصوبےکے تحت محفوظ کیے گئے چیتوں کی آبادی کا اعلان کریں گے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق نریندر مودی کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آئے گا جب یہاں آباد رہنے والے نصف صدی کے دوران جنگلی حیات کے تحفظ کے اس منصوبے سے متاثر ہوتے رہے اور وہ بھی اب اس متعلق اپنی آپ بیتیاں سنائیں گے۔

پروجیکٹ ٹائیگر 1973 میں اس وقت شروع کیا گیا تھا جب چیتوں کی تعداد گننے کے دوران معلوم ہوا کہ بھارت میں چیتوں کی نسل شکار اور تحفظ کے غڑض سے مارد یے جانے کے باعث تیزی سے معدوم ہو رہی ہے۔

ان بے قاعدگیوں سے متعلق قوانین موجود تو تھے لیکن اس کے باوجود چیتوں کی نسل کو معدومی سے بچانے کے لیے محفوظ مسکن بنائے گئے جس کے قدرتی ماحول کو لوگ متاثر نہ کر سکیں۔

کئی مقامی گروہوں کا کہنا ہے کہ محفوظ مسکن مہیا کرنے کا تصور جو کہ امریکہ کے ماحولیات سے متاثر ہے، اس کا مقصد ان متعدد برادریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا جو ہزاروں سال سے جنگلوں میں آباد تھیں۔

ایسے ہی مقامی افراد پر مشتمل ‘ادیواسی گروپس’ نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کمیٹی بنائی جن کا مقصد اپنے آبائی علاقوں سے بے دخل کیے جانے کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔

جینو کروبا قبیلے سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ جے اے شیوو کا کہنا ہے کہ ٹائیگر پروجیکٹ میں شامل کیے جانے والے جنگلوں میں نگارا ہول پہلا جنگل تھا جسے منصوبے میں شامل کیا گیا تھا اور ان کے والدین اور دادا دادی ممکنہ طور پر پہلے افراد تھےجنہیں اس منصوبے کی وجہ سے جنگل سے بے دخل کیا گیا۔

شیوو کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنی زمینوں اور عبادت گاہوں پر جانے کے تمام حقوق کھو چکے ہیں اور ان کے بقول انہیں جنگل سے شہد اکٹھا کرنے بھی نہیں جانے دیا جاتا۔

انہوں نے سوال کیا کہ وہ کیسے اپنی زندگیاں جاری رکھ سکتے ہیں؟

حکام کے مطابق 40 ہزار سے کم افراد پر مشتمل جینو قبیلے جیسے 75 قبائل ہیں جن کے بارے میں بے دخلی کے سبب تشویش لاحق ہے۔

جینو، جس کا جنوبی بھارتی کناڈا زبان میں مطلب شہد ہے، یہی ان کا روزگار بھی تھا جو کہ یہ جنگل سے اکٹھا کرتے تھے۔

خیال رہے کہ جینو قبیلے سے تعلق رکھنے والے بھارت کی غریب ترین آبادیوں میں شمار ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق تحفظ مہیا کرنے سے متعلق پالیسیوں کی وجہ مقامی برادریوں کے خلاف تعصب ہے۔

حکومت کی قبائل سے متعلق وزارت متعدد بار کہہ چکی ہے کہ وہ ادیواسیوں کے حقوق پر کام کر رہی ہے۔

رپورٹس کے مطابق ان قبائل کے لیے زمینیں ماحولیاتی تبدیلیوں، جنگلوں میں لگنے والی آگ، شدید گرمی اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے کم ہوتی چکی گئی ہیں۔

دوسری طرف بھارت میں چیتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ملک میں پائے جانے والے 2 ہزار 967 ٹائیگرز دنیا بھر میں پائے جانے والی چیتوں کی تعداد کا 75 فی صد ہیں۔

بھارت میں قائم کردہ مسکنوں میں رہنے والے چیتوں کی تعداد متعین کردہ جگہ سے زیادہ ہے جب کہ ٹائیگرز شہروں کے مضافات اور گنے کے کھیتوں میں بھی رہ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ ٹائیگرز بالی اور جاوا میں ختم ہو چکے ہیں جب کہ چین میں معدوم ہوتے جا رہے ہیں جب کہ بھارت کے پروجیکٹ ٹائیگر کی کامیابی کو متعدد ممالک کی طرف سے سراہا گیا ہے۔

پروجیکٹ ٹائیگر کے انچارج ایس پی یادیو کا کہنا ہے کہ جب سے یہ پروجیکٹ شروع ہوا ہے، دنیا میں ایسا کوئی اور منصوبہ نہیں ہے اور اس پیمانے کا منصوبہ کہیں اور کامیاب نہیں ہوا۔