امریکہ میں مقیم شیتل دیو نے دیوالی کے لیے اپنے گھر کو خوب دل لگا کر روایتی انداز میں سجایا۔ لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سجاوٹ کسی کے لیے دل دکھانے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
وہ جس اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں اس کے بورڈ کی جانب سے شیتل کو دیے گئے نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ’ہیپی دیوالی‘ کے لیے انہوں نے اپنے فلیٹ کے باہر جو بورڈ آویزاں کیا ہے وہ بعض لوگوں کی’دل آزاری‘ کا باعث ہے۔
شیتل بتاتی ہیں کہ انہوں نے گھر کی بیرونی سجاوٹ میں ’ہیپی دیوالی‘ کا جو بورڈ آویزاں کیا تھا اس میں ’سواستیکا‘ کا نشان بھی شامل تھا جس پر اعتراض کیا گیا۔
دونوں جانب سے دائیں جانب اینگل رکھنے والے انگریزی حرف زیڈ سے مشابہہ کراس کا یہ نشان سواستیکا کہلاتا ہے جسے صدیوں سے ہندو مت، بودھ مت اور جین مت جیسے قدیم مذاہب میں مقدس تصور کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ان مذاہب کو ماننے والے اس نشان کو آج بھی استعمال کرتے ہیں اور ان کی رسومات میں بھی اس کے نقوش نظر آتے ہیں۔
لیکن مغرب میں سواستیکا کو جرمنی پر حکمرانی کرنے والے ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کے نشان ’ہاکن کریوز‘ کے ہم معنی تصور کیا جاتا ہے۔ مغرب میں یہ نفرت انگیزی اور جرمنی میں ہولوکاسٹ کی ہولناک تاریخ کی علامت تصور ہوتا ہے۔ سفیدفام نسل پرست اور نیو نازی گروپس آج بھی اسے خوف اور نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تاہم گزشتہ ایک دہائی کے دوران امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں آباد ہونے والے ایشیائی باشندے اس علامت کی قدیم روایتی معنویت بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
شیتل دیو کا کہنا ہے کہ جو لوگ سواستیکا کے نشان کو مقدس سمجھتے ہیں انہیں اپنی اس روایتی علامت کو اس کے بارے میں پائی جانے والی کسی غلط فہمی پر قربان نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
’یہ نشان دیکھ کر دل پر آرا چل جاتا ہے‘
شیتل دیو کہتی ہیں کہ وہ اس علامت کی روایتی اہمیت پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتیں جب کہ مغرب میں ایسے کئی طبقات ہیں جن کے لیے یہ نشان قابلِ قبول نہیں۔
جوئش فیڈریشن آف نارتھ امریکہ میں ہولوکاسٹ کے صدمے سے گزرنے والوں کے لیے بنائے گئے مرکز کی ڈائریکٹر شیلے روڈ ورنک کا کہنا ہے کہ خاص طور پر ہولوکاسٹ کے صدمے سے گزرنے والے آج بھی سواستیکا کا نشان دیکھ کر ذہنی کرب سے گزرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے دوسری عالمی جنگ کے دوران بے گھر ہونے والوں اور اپنوں کو کھونے والوں کے لیے آج بھی سواستیکا نفرت کی علامت ہے۔
مختلف اشکال سے بننے والے ڈیزائنز کی تاریخ کے ماہر اور کتاب’سواستیکا: سیمبل بی اونڈ ریڈمپشن‘ کے مصنف اسٹیون ہیلر کا کہنا ہے سواستیکا کے ساتھ کئی لوگوں کا اپنے پیاروں سے جدا ہونے کاصدمہ منسلک ہوچکا ہے۔
شیلے ورنک کی طرح ہیلر کے پر دادا بھی ہولوکاسٹ میں ہونے والے مظالم کا نشانہ بنے تھے۔
ہیلر کا کہنا ہے کہ گلاب کو کچھ بھی نام دے دیجیے وہ گلاب ہی رہے گا۔اہم بات یہ ہے کہ کوئی علامت آپ پر بصری اور جذباتی طور پر کیا اثر ڈالتی ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ سواستیکا کا نشان دیکھ کر کئی لوگوں کے دل پر آرا چل جاتا ہے۔
’تندرستی کی علامت‘
سواستیکا کی علامت کا سراغ قبل از تاریخ کے ادوار میں بھی ملتا ہے۔ لفظ ’سواستیکا‘ سنسکرت زبان سے آیا ہے،جس میں اس کے معنی ’تندرستی کی علامت‘ ہے۔ قدیم ترین ہندو مذہبی کتب میں شامل 'رگ وید 'کی دعاؤں میں بھی اس کا استعمال کیا گیا ہے۔
بودھ مت میں اسے ’من جی‘ کہتے ہیں اور اسے گوتم بدھ کے نقوشِ قدم کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ یہ علامت بودھ مت کی عبادت گاہوں کی نشان دہی کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔
چین میں یہی علامت ’وان‘ کہلاتی ہے اور کائنات یا خدا کی تخلیقی عظمت کا نشان سمجھی جاتی ہے۔ سواستیکا جین مت کی مذہبی علامتوں میں بھی شامل ہے۔ وہاں اسے موت و حیات کا دائرہ مکمل کرکے روح کی آزادی کے تصور کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔قدیم ایران کے مذہب زرتشتیت میں سواستیکا کائنات کی تخلیق کے چار عناصر پانی، آگ، ہوا اور مٹی کی علامت ہے۔
بھارت میں عام طور پر گھر، دکان وغیرہ کی چوکھٹ اور گاڑیوں وغیرہ پر سندور یا ہلدی سے یہ علامت بنائی جاتی ہے۔ خاص طور پر مذہبی تہواروں کے موقعے پر سجاوٹ اور کھانے پینے کی اشیا پر بھی یہ نشان بنایا جاتا ہے۔
روم کے زیرِ زمین مقبروں، یونان اور ایران کے آثارِ قدیمہ، ایتھوپیائی اور ہسپانوی گرجا گھروں میں بھی سواستیکا کی علامت کے سراغ ملتے ہیں۔
مقامی امریکی قبائل کی روایات میں بھی سواستیکا کا نشان پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر جنوب مغرب کے ناواجو اور ہوپی قبائل کی رسوم و روایات میں بھی یہ علامت استعمال ہوتی ہے۔
ہٹلر کی پارٹی کا نشان کیسے بنا؟
سواستیکا کے ایسے نقوش بھی دریافت ہوئے ہیں جن کی قدامت 15 ہزار سال سے زائد بھی ہے۔ ان میں سے بعض ہسٹری آف یوکرین میں موجود ہیں جب کہ بعض ایسے فن پارے وادیٔ مہران کے آثار سے بھی ملے ہیں۔ یہ تہذیب 2600 سے 1900 قبلِ مسیح کے دوران عروج پر تھی۔
سواستیکا کی علامت کا احیا انیسویں صدی میں ہوا جب جرمن ماہر آثارِ قدیمہ ہینرچ شلیمن نے شہر ٹرائے کے آثار کی کھدائی میں اس کے نقوش دریافت کیے تھے۔ انہوں نے اسے یورپ اور ایشیا کی مشترکہ آریائی ثقافت کی علامت قرار دیا تھا۔ مؤرخین کے نزدیک اسی تصور کی وجہ سے جرمنی کے قوم پرست گروہ سواستیکا کی علامت کی جانب متوجہ ہوئے۔ ان میں نازی پارٹی بھی شامل تھی جس نے 1920 میں باقاعدہ طور پر اسے اپنا نشان قرار دے دیا۔
SEE ALSO: عمران خان کے حلف لینے کے انداز پر تنقید: ’نازی سیلوٹ‘ ہے کیا؟اسی طرح بیسویں صدی کے آغاز میں شمالی امریکہ کے خطے میں سواستیکا ٹائیلوں، تعمیراتی ڈیزائنز، فوجی نشانات، ٹیمز کے لوگو، سرکاری عمارتوں اور مارکیٹنگ کی مہمات میں استعمال ہونے لگا۔
کوکا کولا اور بیئر تیار کرنے والی کمپنی کارلسبرگ نے بھی اس علامت کا استعمال کیا۔ 1940 میں امریکہ میں بوائے اسکاؤٹس کے بیجز پر بھی یہ نشان نقش تھا۔
’سواستیکا ہٹلر کے نشان سے الگ ہے‘
نیویارک سے تعلق رکھنے والے بودھ مت کے مذہبی پیشوا ٹی کے ناکاگاگی کا کہنا ہے کہ انہیں اس وقت حیرت کا جھٹکا لگا جب انہیں ایک بین المذاہب کانفرس میں معلوم ہوا کہ سواستیکا کے نشان کو عالمی سطح پر شر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب وہ ’سواستیکا‘ یا ’من جی‘ کا لفظ سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں جاپان کے بودھ مندر آتے ہیں جہاں وہ پلے بڑھے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ علامت سینکڑوں سال سے وجود رکھتی ہے، اسے صرف ہٹلر کی وجہ سے نفرت کا نشان کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔
ناکاگاگی نے 2018 میں اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہٹلر کا نشان اور بودھ مت کے سواستیکا کی ظاہری شکل بھی مختلف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہٹلر کے نشان کے لیے امریکہ میں 1930 کی دہائی تک ’ہاکن کریوز‘ کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ لیکن اس کے بعد اس لفظ کو سواستیکا سے بدل دیا گیا۔
ناکاگاگی کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ آسان نہیں ہوگا لیکن اس موضوع پر بات ہونی چاہیے۔ ان کے بقول، یہ مکالمہ بھی امن کے فروغ کے لیے ہی ہوگا۔
’ایک غلط فہمی کی وجہ سے آزادی پر سمجھوتا‘
دی کولیشن آف ہندوز آف نارتھ امریکہ ان مذہبی گروپس میں شامل ہے جو سواستیکا اور ہاکن کیروز کی علامتوں میں فرق واضح کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔یہ گروپ کیلی فورنیا کے اس قانون کا حامی ہے جس میں ہٹلر کے نشان ہاکن کیروز کے اظہار کو قابلِ سزا جرم قرار دیا ہے جب کہ مقدس تصور ہونے والے سواستیکا کے نشان کو اس قانون سے استثنی دیا ہے۔
اس کے باوجود سماجی سطح پر ان دونوں علامتوں کے درمیان تفریق نہیں کی جاتی ہے۔
کلیولینڈ میں رہنے والے وکاس جین پیشے کے اعتبار سے ایک معالج ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب بھی ان کے بچوں کے دوست ان کے گھر آتے ہیں تو وہ اور ان کی اہلیہ ایسی تصاویر چھپا دیتے ہیں جن پر سواستیکا کی علامت موجود ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کے دوست ان سواستیکا اور ہاکن کیروز کے درمیان فرق نہیں سمجھتے۔
وکاس جین کا کہنا ہے کہ وہ یہودی کمیونٹی کے ساتھ مکمل یکجہتی کے احساسات رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں لگتا ہے کہ ایک غلط فہمی کی وجہ سے وہ اپنے مذہب جین مت کی روایات پر پوری آزادی سے عمل نہیں کرپاتے۔
وہ بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں جین مت کے نشانات میں سواستیکا شامل ہے لیکن امریکہ کی جین کمیونٹی نے جانتے بوجھتے اپنی مہر سے حذف کردیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جین کمیونٹی چاہتی ہے کہ ان کے نشان اور ہٹلر کے سواستیکا کے درمیان فرق کیا جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے نسل پرستی اور نفرت کی علامت سمجھے جانے والے ’برننگ کراس‘ اور مسیحیت میں مقدس مانے جانے والے صلیب کی علامتوں میں فرق کیا جاتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے
دوسری عالمی جنگ سے پہلے شمالی امریکہ میں ’سواستیکا‘ بہت مقبول تھا۔ اس کے نام پر کئی مقامات بھی تھے۔ 1917 میں میامی کے ایک علاقے میں ’سواستیکا پارک‘ بنایا گیا تھا جو آج بھی اسی نام سے برقرار ہے۔
نیویارک کی ایڈیرونڈیک پہاڑی سلسلے میں واقع ایک گاؤں کا نام سواستیکا ہے۔2020 میں اس کا نام تبدیل کرنے پر غور شروع ہوا تاہم مقامی ٹاؤن کونسلر اس نتیجے پر پہنچے کہ چوں کہ یہ نام دوسری عالمی جنگ سے پہلے کا تھا جب سواستیکا کو صرف خوش حالی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے گاؤں کا نام تبدیل نہیں کیا گیا۔
امریکہ اور یورپ میں ایسی کئی دیگر مثالیں مل جاتی ہیں۔ جب کہ بعض مثالوں میں سواستیکا سےمتعلق دورِحاضر کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نام تبدیل بھی کیے گئے ہیں۔
امریکہ کی ریاست اوریگون کے پہاڑی سلسلوں میں ایک پہاڑ کا نام سواستیکا ایک مقامی رہائشی کی شکایت پر تبدیل کردیا گیا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ اور ہٹلر کی نازی پارٹی کی جانب سے اس علامت کے استعمال سے قبل اس کی معنویت کچھ مختلف تھی۔ امریکہ میں مقامی قبائل کی روایات میں بھی اس سے ملتی جلتی علامتیں ملتی ہیں اور وہ بھی یہودی کمیونٹی سے یکجہتی کے ساتھ ساتھ اس روایتی نشان کے نازی پارٹی کی علامت سے الگ ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔
’ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے‘
نیو ہیمپشائر سے تعلق رکھنے والے ہولوکاسٹ کے مؤرخ جیف کیلمن بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو سواستیکا اور ہٹلر کے نشان ہاکن کریوز میں فرق مختلف سمجھتے ہیں۔ وہ اس بارے میں یہودی کمیونٹی میں آگاہی پھیلانے کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میں نے تصورات کا فرق سمجھانے کے لیے کمیونٹی کے سامنے یہ مثال رکھی کہ جو لوگ سواستیکا کو بھلائی کا نشان سمجھتے ہیں وہ اپنے بچوں کا نام بھی یہ رکھ سکتے ہیں۔ اگر کسی انڈین لڑکی کا نام سواستیکا ہو تو اسے اسکول میں صرف اس کے نام کی وجہ سے ہراساں کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے ہمیں ہاکن کریوز اور سواستیکا کو دو الگ الگ علامتوں کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
SEE ALSO: کیا روسی صدر پوٹن اس دور کے ہٹلر ہیں؟کلیمن کا کہنا ہے کہ کوئی یہودی نہیں چاہے گا کہ ہٹلر کی قائم کی گئی مثالیں جاری رہیں اور لوگوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی رہیں۔
گریٹا ایلبوگن کی عمر 85 برس ہے اور ان کی دادی اور کئی کزن ہولوکاسٹ میں قتل ہوئے تھے۔انہیں جب سواستیکا کے مقدس علامت ہونے کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ حیران تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ نیا مفہوم معلوم ہونے کے بعد وہ اس نشان سے جڑے خوف کے تصور سے آزاد ہوگئی ہیں۔
ایلبوگن کہتی ہیں کہ یہ جاننے کے بعد کہ سواستیکا کئی لوگوں لیے خیر اور محبت کی علامت ہے وہ سمجھتی ہیں کہ ماضی کو فراموش کرکے مستقبل دیکھنا چاہیے۔
’ہٹلر نے اس نشان کو آلودہ کردیا‘
امریکہ میں نفرت انگیزی پر مبنی جرائم کے خلاف کام کرنے والی تنظیم ’اینٹی ڈی فیمیشن لیگ‘ سے منسلک محقق مارک پٹکیوج کا کہنا ہے کہ کئی گروہ کسی روایتی علامت کو اختیار کرکے اس کی معنویت تبدیل کردیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مسیحیت کی علامت سمجھے جانے والے کلیٹک کراس کو کئی نیو نازی گروپ اور سفید فام نسل پرست علامت کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔ اس کراس میں اوپر کی جانب ایک دائرہ بھی ہوتا ہے۔
مارک پٹکیوج اس بارے میں کومک کریکٹر تھور کے ہتھوڑے کی مثال بھی دیتے ہیں جسے بعض سفید فام گروپ ہٹلر کے نشان ہاکن کریوز کے ساتھ ملا کر نفرت انگیزی کے لیے علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ان کے مطابق جہاں تک سواستیکا کا سوال ہے تو ہٹلر نے کئی تاریخی سیاق و سباق رکھنے والی اس علامت کو آلودہ کردیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مغرب میں نازی ازم سے اس علامت کا تعلق لوگوں کے ذہن میں اس قدر پختہ ہوچکا ہے کہ ان کے خیال میں اس بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے کی کوششوں کے باوجود اس تعلق کو مکمل طور پر ذہنوں سے بالکل محو نہیں کیا جاسکتا۔
اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔