افغانستان کے شمالی شہر ایبک کے ایک مدرسے میں بدھ کو ایک دھماکے میں کم از کم 16 افراد ہلاک جب کہ 24 دیگر زخمی ہو گئے۔
خبر رساں اداے اے ایف پی کےمطابق دارالحکومت کابل سے تقریباً دو سو کلومیٹر شمال میں واقع ایبک شہر میں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر نوجوان تھے۔
گزشتہ سال اگست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے درجنوں ایسے دھماکے اور حملے ہو چکے ہیں جن میں شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ان حملوں میں سے زیادہ تر کا دعویٰ افغانستان میں کئی سالوں سے فعال دہشت گرد گروپ داعش کی مقامی شاخ نے کیا ہے۔
مقامی ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہلاک ہونے والے سب بچے اور عام لوگ ہیں۔‘
ایک صوبائی اہل کار نے اسلامی مذہبی درس گاہ الجہاد کے مدرسے میں ہونے والے دھماکے کی تصدیق کی۔ تاہم، خبر کے مطابق، وہ ہلاکتوں کے اعداد و شمار فراہم نہیں کر سکے۔
طالبان نے، جو اکثر ہلاکتوں کے اعداد و شمار کو کم کر کے بتاتے ہیں، کہا کہ 10 طلباء ہلاک اور "متعدد" زخمی ہوئے۔
طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالنافع ٹاکور نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’ہماری جاسوسی اور سیکیورٹی فورسز اس ناقابل معافی جرم کے مرتکب افراد کی شناخت اور انہیں ان کے اعمال کی سزا دینے کے لیے تیزی سے کام کر رہی ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر اور ویڈیو، جن کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی، نے طالبان جنگجوؤں کو عمارت کے فرش پر بکھری لاشوں کے بیچ میں سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ نماز کی چٹائیاں، ٹوٹے ہوئے شیشے اور دیگر ملبے نے جائے وقوعہ کو جیسے کچل دیا۔
شہر ایبک ایک چھوٹا لیکن قدیم صوبائی دارالحکومت ہے جو چوتھی اور پانچویں صدی کے دوران تاجروں کے لیے ایک کارواں رکنے کی چوکی کے طور پر مشہور ہوا جب یہ بدھ مت کا ایک اہم مرکز بھی تھا۔
مسائل میں گھرے ملک میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے والے بڑے دھماکوں کے درمیان چند ہفتوں کا وقفہ دیکھا گیا ہے حالانکہ کئی طالبان جنگجو الگ تھلگ حملوں میں مارے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں سال ستمبر میں افغانستان میں کم از کم 54 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں 51 لڑکیاں اور نوجوان خواتین شامل تھیں ۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب ایک خودکش بمبار نے کابل کے ایک ہال میں دھماکہ کیا جس میں سینکڑوں طلباء یونیورسٹی میں داخلے کے لیے پریکٹس ٹیسٹ دے رہے تھے۔
اس بم دھماکے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی تھی لیکن طالبان نے بعد میں داعش پر اس دھماکے کا الزام عائد کیا تھا اور کہا کہ اس نے کئی سرغنوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
طالبان کی گزشتہ سال اقتدار میں واپسی سے پہلے کم از کم 85 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر لڑکیاں تھیں جب کہ پڑوس میں ان کے سکول کے قریب تین بم پھٹنے سے تقریباً 300 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
کسی گروپ نے اس دھماکےکی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ لیکن ایک سال قبل داعش نے علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر خودکش حملے کا دعویٰ کیا تھا جس میں 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
طالبان کی اقتدار میں واپسی سے ان کی شورش کا تو خاتمہ ہوگیا لیکن داعش ملک بھر میں حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
(اس خبر میں شامل زیادہ تر مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے )