جج برا ہے تو نام لے کر تنقید کریں پر عدلیہ کی توہین نہ کریں: جسٹس فائز عیسٰی

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے اپنے عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ہفتے کو لاہور میں شروع ہونے والی دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے پہلے روز خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جج پر تنقید کرنا ہر کسی کا حق ہے, برے جج کا نام لے کر تنقید کرنی چاہیے۔ لیکن بطور ادارہ جوڈیشری کو ہدفِ تنقید بنانا مناسب نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو جمہوریت کی ضرورت ہے۔ اسے عدلیہ اور ایگزیکٹو کی ضرورت ہے اور بطور ایگزیکٹو کا حصہ فوج بھی پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔

جسٹس عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان سے جمہوریت کو نکالنا اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ یہ وطن دُشمنی ہے۔ پاکستان کو منتخب کردہ قیادت کے ذریعے ہی حکمرانی کی ضرورت ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ بولے کے وہ پانچ برس تک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے اور اس دوران انپرکسی نے فیصلوں کے لیے دباؤ نہیں ڈالا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ دیکھ کر اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جب سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے والے جج نے ٹی وی پر آ کر کہا کہ اُن پر دباؤ تھا۔

جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ کیا آپ صرف دباؤ پڑنے سے کسی کی جان لے سکتے ہیں؟ آپ پر دباؤ تھا تو عزت کے ساتھ مستعفی ہو کر گھر چلے جاتے۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین کو بار بار پامال کیا گیا، سب سے پہلے ضیاء الحق، پھر پرویز مشرف نے آئین کی خلاف ورزی کی۔

کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ آفت کو ٹرپل ٹریجڈی کہنا چاہیے۔ موجودہ آفت نے ان علاقوں میں نقصان کیا جہاں بارشیں کم ہوتی تھیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ مغربی دنیا کی ذمے داری ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونی والی صورتِ حال کو دیکھے۔

اُنہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا ایک تنازع چل رہا ہے جس کے تحت آئی ایم ایف نے اُنہیں پابند کیا ہوا ہے کہ ترقیاتی بجٹ کے 40 فی صد کو آخر ی کوارٹر میں استعمال کرنا ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو دوسرے یا تیسرے کوارٹر میں 40 فی صد بجٹ خرچ کرنے کی اجازت دے۔ تاکہ سیلاب زدگان کی ہنگامی بنیادوں پر مدد ہو سکے۔


ایک اور سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ سب کو مل کر آئین کو محفوظ اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مسائل اپنی جگہ پر مگر آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ حالیہ اور سابق حکومت کا معاملہ سپریم کورٹ نے حل کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ فوج نے مختلف ادوار میں حکومت سنبھالی۔ فوج اور عدلیہ کے درمیان ہمیشہ ایک خلا رہا ہے۔ ملٹری ڈکٹیٹر آئین میں ترمیم کا نہیں کہہ سکتا۔ پاکستان میں جمہوری حکومت ہی پارلیمانی نظام کامیابی سے چلا سکتی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ججز کی تعیناتی میں میرٹ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوگا تو مثبت تبدیلی نہیں آسکتی۔

دو روز تک جاری رہنے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں آزادیٔ صحافت، آئین، قانون، خواتین کے حقوق، موسمیاتی تبدیلیاں، ادب سمیت مختلف موضوعات پر مباحثے ہوں گے۔

کانفرنس میں شرکت کے لیے مختلف ملکوں سے انسانی حقوق، صحافت اور ادب سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شرکت کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ 2021 میں ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس تنازع کا شکار ہو گئی تھی۔ ایک سیشن میں اس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد کی موجودگی میں سینئر وکیل علی احمد کرد نے اعلٰی عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر جسٹس گلزار احمد نے بھی سخت ردِعمل دیا تھا۔

بعدازاں کانفرنس کے دوسرے روز سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا خطاب منسوخ کرنے کے لیے کانفرنس انتظامیہ پر مبینہ دباؤ ڈالنے کی بھی اطلاعات آئی تھیں۔ اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے کانفرنس کے انعقاد اور اس کے لیے فنڈز کے معاملے کی جانچ پڑتال کا اعلان کیا تھا۔