چھوٹے صوبوں کے مسائل کی وجہ عشروں کی محرومیاں ہیں، اختر مینگل

عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوسرے روز ایک نشست میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر گفتگو کر رہے ہیں۔ 20 اکتوبر 2019

لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز تمام ہی مباحثوں (سیشنز) کے مقررین ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ بطور صحافی میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون سی نشست کو چُنا جائے اور کس کو چھوڑا جائے۔ بالاآخر انصاف تک رسائی کے تحت ہونے والے مباحثے "فاٹا انضمام کے بعد" کی نشست کا انتخاب کیا۔

ہوٹل کے ایک ہال میں جاری اِس مباحثے کے لیے پہنچا تو منتظمین غیر متوقع اضافی رش کے باعث ہال کے دروازے بند کر چکے تھے۔ اپنا تعارف کرا کر بمشکل اندر پہنچا تو دیکھا کہ منتظمین حاضرین کے لیے اضافی کرسیاں لگانے میں مصروف ہیں جب کہ کچھ حاضرین کھڑے ہو کر ہی گفتگو کا مزہ لے رہے ہیں۔

'فاٹا انضمام کے بعد' کے نام سے جاری مباحثے کی صدارت پاکستان کے معروف صحافی، تجزیہ کار اور کالم نویس سلیم صافی کر رہے تھے۔ اِس مباحثے میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضام سے قبل ایک خاص قانون کے تحت فوج کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی کو بھی پکڑ کر حراستی مراکز میں رکھ سکتی ہے جس پر کوئی وکیل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ فرحت اللہ بابر نے دعوٰی کیا کہ فاٹا کے انضمام کے بعد اب پورے خیبر پختونخواہ میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ قبائلی علاقوں میں طالبان دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ​ قبائلی علاقوں میں امن قائم کرنے کیلئے فوج کو وہاں سے واپس لینا چاہئیے اور امن و امان قائم کرنے کی ذمہ داری پولیس کے سپرد کر دی جانی چاہئیے۔

عاضمہ جہانگیر کانفرنس میں لوگ مقررین کو سن رہے ہیں۔ 20 اکتوبر 2019

مباحثے میں شریک پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام سے کچھ بہتر چیزیں بھی ہوئی ہیں لیکن اختیارات کے غلط استعمال کے باعث بہت سا بگاڑ بھی پیدا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے انضمام سے پہلے جب لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے تھے تو قبائلی قانون چالیس ایف سی آر کے تحت انہیں جیل بھجوا دیا جاتا تھا اور آج اپنے حقوق کی آواز اٹھانے والوں کو تین ایم پی او کے تحت جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ محسن داوڑ نے مزید کہا کہ قبائلی علاقوں میں اینٹی ٹیررسٹ ایکٹ کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ پولیس کی ذمہ داریاں نبھانا فوج کا کام نہیں ہے۔ جب تک فوج، پولیس کا کام کرتی رہے گی علاقے میں استحکام نہیں آئے گا۔

عاضمہ جہانگیر کانفرنس کا ایک منظر 20 اکتوبر 2019

انہوں نے شمالی وزیرستان کے علاقے خڑکمر میں فائرنگ میں ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ افراد کو انصاف دینے کی بجائے الٹا انہی پر مقدمے قائم کر دیے گیے ہیں۔

مباحثے کے میزبان سلیم صافی نے کہا کہ گزشتہ سال قبائلی علاقوں کو ترقیاتی بجٹ نہیں دیا گیا۔ قبائلی علاقوں میں عام آدمی ابھی تک مخصوص لوگوں کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا تو صحافی کیسے جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کی نگرانی اور جانچ پڑتال کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا ہے۔ تمام سیاسی قوتوں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو ترقیاتی کاموں اور فاٹا کے خیبر پختونخواہ میں انضمام کی جانچ پڑتال کرے۔

مباحثے میں شریک پاکستان تحریک انصاف کے وزیر خزانہ کے پی کے تیمور جھگڑا نے کہا کہ سب کو ماضی کو بھلا کر آگے چلنا ہو گا۔ سارے علاقے میں بہتری آئے گی اور ترقیاتی کام ہوں گے۔ تیمور جھگڑا نے کہا کہ اُن کی حکومت نے 72 سال بعد قبائلی علاقوں میں اتنخابات کرائے اور صحت کارڈ دیے۔

انہوں نے کہا کہ حالات بہتر ضرور ہوئے ہیں لیکن مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئے۔ وہاں فوج سرحدوں کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔

عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں 'آئینی فریم ورک کی مضبوطی' پر مباحثے میں گفتگو کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل نے کہا کہ آج پاکستان میں فیڈیشن پر سوالیہ نشان اُٹھ رہے ہیں۔ یہ حالات اچانک پیدا نہیں ہوئے۔ یہ عشروں کی محرمیاں ہیں۔

عاضمہ جہانگیر کانفرنس کے دوسرے روز کے اجلاس کی ایک نشست کے مقررین۔ 20 اکتوبر 2019

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہمیشہ ہی سے حکومت سلیکٹڈ رہی ہے۔ آج بلوچستان میں پانچ ہزار افراد لاپتا ہیں۔ سپریم کورٹ میں بار بار پیش ہونے کے بعد شاید چار سو افراد ہی بازیاب ہو سکے ہیں۔ احتساب صرف سیاستدانوں کا نہیں بلکہ ہر شعبے کا ہونا چاہیے۔ کسی کے لیے استثنیٰ نہیں ہونا چاہیئے۔

اِسی نشست میں عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا کہ آج تک خیبر پختونخواہ کو پورے اختیارات نہیں دئیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام ادارے آئین کے تحت چلنے چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر سول حکومتوں کی خارجہ اور اندرونی پالیسیوں پر گرفت مضبوط ہوتی تو پاکستان میں دہشت گردی کبھی نہ آتی۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن پر مذہب کارڈ کا الزام لگانے والوں نے خود بھی ہر کارڈ استعمال کیا۔

ماہر قانون علی احمد کرد نے عاصمہ جہانگر کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں لوگوں کو حقوق دینا ہوں گے۔ وہاں شناخت اور حقوق کا معاملہ ہے۔ علی احمد کُرد نے کہا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی کے نام پر لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔