پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شہر کوہاٹ میں 2018 کے اوائل میں رشتے سے انکار کرنے پر میڈیکل کالج کی طالبہ کو قتل کرنے والے مجرم کو لڑکی کے والد نے معاف کر دیا ہے۔
کوہاٹ پولیس نے صلح نامے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبہ عاصمہ رانی کے والد غلام دستگیر نے اتوار کو کوہاٹ میں ایک روایتی پشتون جرگے کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے سزائے موت پانے والے مجرم مجاہد اللہ آفریدی کو معاف کر دیا ہے۔
البتہ عاصمہ رانی کے آبائی ضلع لکی مروت سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر وکیل شیر افضل مروت نے صحافیوں کو بتایا کہ غلام دستگیر نے فیصلہ کرتے وقت مروت قومی جرگہ کے اراکین کو اعتماد میں نہیں لیا۔ لہذٰا وہ اس صلح کے خلاف عدالت سے رُجوع کریں گے۔
لکی مروت سے تعلق رکھنے والے حافظ منہاج الدین نے بتایا کہ معاہدے کے مندرجات ابھی تک سامنے نہیں آئے مگر اطلاعات کے مطابق لڑکی کے خاندان نے بھاری رقم کے عوض صلح کی ہے جس پر مقامی جرگہ اراکین ناراض ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب اس فیصلے کے خلاف لکی مروت قومی جرگہ میں شامل بعض اراکین بشمول وکلا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جرگہ اراکین نے الزام لگایا کہ مقتولہ عاصمہ رانی کے قاتلوں کے دباؤ میں آ کر اور پیسے لے کر مروت قوم کی عزت کو داؤ پر لگایا گیا ہے۔
البتہ عاصمہ رانی کے والد نے جرگہ اراکین کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے مجرم کو معاف کیا ہے۔
اُن کے بقول صلح کے معاہدے کا باقاعدہ اعلان آئندہ اتوار کو کوہاٹ کے تبلیغی مرکز میں ہو گا۔
دوسری طرف مروت قومی جرگہ نے اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی لکی مروت کا باشندہ کوہاٹ گیا تو اس کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ حافظ منہاج الدین نے کہا کہ بائیکاٹ کی دھمکی پر بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے مگر زیادہ تر لوگ اس صلح بالخصوص مجرم کو معاف کرنے کے فیصلے پر ناخوش ہیں۔
خیال رہے کہ مجاہد آفریدی کو پشاور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج اشفاق تاج نے رواں برس جون میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ سزائے موت کے علاوہ عدالت نے مجرم کو 30 لاکھ جرمانے اور مقتولہ کے خاندان کو 20 لاکھ روپے ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
عاصمہ رانی کون تھیں؟
واضح رہے کہ مقتولہ عاصمہ رانی میڈیکل کے تیسرے برس کی طلبہ تھیں جنہیں کوہاٹ میں جنوری 2018 میں مبینہ طور پر شادی کی پیش کش ٹھکرانے پر مجاہد آفریدی نامی نوجوان نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
پولیس کے مطابق عاصمہ پر فائرنگ کے فوراً بعد مجاہد متحدہ عرب امارات فرار ہو گیا تھا اور پاکستانی حکومت کی درخواست پر انٹرپول کے ریڈ نوٹس جاری کرنے کے بعد اسے گرفتار کر کے مارچ 2018 میں پاکستان واپس لایا گیا تھا۔
عاصمہ رانی کے قتل پر پاکستان میں سول سوسائٹی کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا تھا جب کہ سوشل میڈیا پر بھی ملزم کی فوری گرفتاری کے مطالبات کیے گئے تھے۔