رسائی کے لنکس

اسما قتل کیس: ملزم کے ڈی این اے کی شناخت ہو گئی


اسما کو گزشتہ ماہ جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ اس کے گھر میں تعزیت کے لیے آئے ہوئے لوگ۔ (فائل فوٹو)
اسما کو گزشتہ ماہ جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ اس کے گھر میں تعزیت کے لیے آئے ہوئے لوگ۔ (فائل فوٹو)

صوبہ خیبرپختونخواہ میں گزشتہ ماہ جنسی زیادتی کے بعد قتل ہونے والی چار سالہ بچی کے واقعے میں جینیاتی (ڈی این اے) نمونہ ملزم کے نمونے سے میچ کر گیا ہے جب کہ پولیس نے منگل کو بتایا کہ اس معاملے میں تین ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

منگل کو پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنا اللہ نے ایک پریس کانفرنس میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس بارے میں متعلقہ حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ ماہ مردان کے علاقے گوجر گڑھی میں چار سالہ بچی اسما کی لاش گنے کے کھیتوں سے ملی تھی اور طبی تجزیے سے معلوم ہوا تھا کہ بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔

پولیس نے جائے وقوع کے تین مربع کلومیٹر کے علاقے سے 145 افراد کے جینیاتی نمونے لے کر تجزیے کے لیے لاہور میں پنجاب فرانزک لیبارٹری بھجوائے تھے۔

اطلاعات کے مطابق گرفتار کیے گئے ملزمان مقتولہ کے رشتے دار ہیں۔

قبل ازیں اس واقعے کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پنجاب فرانزک لیبارٹری کو ہدایت کی تھی کہ وہ فوری طور پر جینیاتی تجزیے کی رپورٹ خیبر پختونخواہ پولیس کو فراہم کرے۔

رانا ثنا اللہ نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران خیبرپختونخواہ پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے سنگین الزامات بھی لگائے جسے خیبر پختونخواہ میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ایک راہنما فواد چودھری نے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔

اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران فواد چودھری کا کہنا تھا کہ پولیس کی کارکردگی کو کسی ایک واقعے سے نہیں جانچا جاتا بلکہ مجموعی طور پر جرائم کے خلاف اس کے ردعمل پر اس بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ کوہاٹ میں گزشتہ ماہ قتل ہونے والی ایک طالبہ عاصمہ رانی کے قتل کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران منگل کو چیف جسٹس نے صوبے کی پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فواد چودھری کو عدالت میں آ کر ان مقدمات کی کارروائی دیکھنے کا کہا تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فواد چودھری دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے خیبر پختونخواہ پولیس کو مثالی پولیس قرار دیتے ہیں لہذا انھیں یہاں آ کر دیکھنا چاہیے کہ یہ پولیس کس قدر مثالی ہے۔

XS
SM
MD
LG