سپریم کورٹ نے کوہاٹ کی طالبہ عاصمہ رانی کے قتل کی تحقیقات خیبر پختونخوا سے باہر کرانے کا عندیہ دیا ہے۔
گزشتہ ماہ کی 27 تاریخ کو خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں رشتے سے انکار پر ایبٹ آباد میڈیکل کالج کی طالبہ عاصمہ رانی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جو دو روز بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئیں تھیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی خیبرپختونخوا پولیس سے رپورٹ طلب کی تھی۔
مقتول عاصمہ رانی کی بہن صفیہ رانی نے الزام عائد کیا تھا کہ کوہاٹ تحریکِ انصاف کے ضعلی صدر آفتاب عالم کے خاندان کے افراد ان کی بہن کے قتل میں ملوث ہیں۔
منگل کو ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ دوسروں پر تنقید کی جاتی ہے اور اپنی پولیس کو بہت اچھا کہتے ہیں۔ فواد چوہدری کی موجودگی میں کیس سنیں گے تاکہ کارکردگی کا پتہ چلے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت سی چیزیں ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہیں، کل بھی ایک واقعہ ہو گیا، کے پی پولیس اپنی کارکردگی سے ثابت کرے کہ اس پر سیاسی دباؤ نہیں۔
عدالت نے پی ٹی آئی کوہاٹ کے ضلعی صدر آفتاب عالم اور صوبائی سیکریٹری داخلہ کو بھی فوری پیش ہونے کا حکم دیا اور استفسارکیا کہ آفتاب عالم کو اب تک کی تحقیقات میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ ملزم مجاہد کو دبئی سے کتنے عرصے میں واپس لایا جاسکتا ہے؟ کیا ملزم کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے پڑیں گے اور کیا ریڈ وارنٹ ہم جاری کر سکتے ہیں؟ کیا شاہ زیب اور مجاہد کا موبائل ڈیٹا حاصل کیا گیا؟
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ معلوم ہی نہیں ملزم دبئی میں ہے یا سعودی عرب میں۔ لگتا ہے کہ ملزم نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کیا۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ چاہے رات کے 8 بج جائیں آج ہی کیس سنیں گے۔ متعلقہ افراد جلد ازجلد عدالت میں پیش ہوجائیں جس کے بعد سماعت میں 2 بجے تک وقفہ کردیا گیا۔
وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو آفتاب عالم عدالتی حکم پر عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے آفتاب عالم سے مکالمے میں کہا کہ سنا تھا کہ پشتون بڑے غیرت مند ہوتے ہیں۔ کیا پشتون چھپ کر بیٹھ سکتے ہیں؟ بچی کو مارا اور خود چھپ کر بیٹھ گئے۔ بھتیجے کو کیوں بھاگنے دیا؟ اگر آپ کی حکومت نے اثر انداز ہونے کی کوشش کی تو کیس کے پی کے سے منتقل کر دیں گے۔بھتیجے کو لے کر آئیں۔ اگر آپ اپنے بھتیجے کو لائیں گے تو آپ کی عزت ہو گی۔ ہم حفاظتی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔ کیا ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں؟
چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب تگڑے رہنا، ہم آپ پر انحصار کر رہے ہیں۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس صلاح الدین محسود نے چیف جسٹس کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے کیس پر اثر انداز ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ جانفشانی سے کیس کی تفتیش کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ریڈ وارنٹ کے لیے درخواست دے دی ہے۔
گزشتہ ماہ ہی خیبر پختونخوا مردان میں ایک چار سالہ بچی اسما کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے میں ملوث شخص کی بھی نہ تو تاحال نشان دہی ہو سکی ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔
اس واقعے کا بھی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے رکھا ہے جس کی منگل کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ صلاح الدین محسود پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "پولیس پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو تحفظ فراہم کرے۔۔۔ ایک بچی کو اندوہ ناک واقعے کا سامنا کرنا پڑا اور ابھی تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔"
چیف جسٹس نے متعلقہ حکام کو تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید دو ہفتوں کا وقت دے دیا ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر اسما کے واقعے کی فرانزک رپورٹ خیبر پختونخوا پولیس کو فراہم کرے۔