روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور شام کے صدر بشارالاسد نے ماسکو میں ملاقات کی ہے، جس کے دوران شام کے اندر چار سال سے زیادہ عرصے سے جاری خانہ جنگی اور بظاہر روسی مداخلت پر بات ہوئی ہے۔
روس اِس جنگ میں حالیہ دِنوں میں شریک ہوگیا ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ وہ داعش کے جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہا ہے، جبکہ دوسرے ملکوں کا کہنا ہے کہ روس اسد مخالف گروپوں کو نشانہ بنا رہا ہے، جن میں شہریوں کا بھی جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔
ادھر، خبروں کے مطابق، ایران بھی روس کے ساتھ اس جنگ میں کود گیا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں معروف تجزیہ نگار، پروفیسر فیضان حق اور بین الاقوامی سیاسی امور کے ایک ماہر پروفیسر رسول بخش رئیس سے نفیسہ ہود بھائے نے اس صورت حال پر اُن کا تجزیہ معلوم کیا۔
پروفیسر فیضان حق نے الزام لگایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ روس داعش اور شام کے صدر کے ساتھ شمولیت اختیار کر رہا ہے، تاکہ ان کے اپنے الفاظ میں، ’شام کے اندر اعتدال پسند عناصر کو کچلا جا سکے‘۔
پروفیسر رسول بخش رئیس نے اس خیال کا اظہار کیا کہ پیوٹن اور اوباما کے پاس ایک ایسا موقع تھا کہ وہ آپس میں تعاون کرتے ہوئے داعش کو کچل سکتے تھے۔ تاہم، بقول اُن کے، ’روس کے مفادات اُسے کسی اور سمت لے جا رہے ہیں‘۔
دونوں تجزیہ کاروں کا یہ کہنا تھا کہ اسد اور پیوٹن کے درمیان ملاقات سے محض شامی حکومت کا حوصلہ بڑھے گا، اور اُن کے مطابق، ’شام کے اندر جنگ بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں، پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا‘۔
یاد رہے کہ شام کی خانہ جنگی میں، ایک اندازے مطابق، اب تک کم سے کم دو لاکھ 40 ہزار لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں اپنے گھربار سے محروم ہوچکے ہیں۔
تفصیل کے لیے درج ذیل آڈیو رپورٹ سنیئے:
Your browser doesn’t support HTML5