بھارت: آسام کے وزیرِ اعلیٰ کی دینی مدارس بند کرنے کی دھمکی

بھارتی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اب تک ریاست میں 600 مدرسوں کو بند کر چکے ہیں اور بہت جلد تمام مدارس بند کرا دیں گے کیوں کہ وہ ریاست میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیز چاہتے ہیں مدرسے نہیں۔

اُنہوں نے 2020 میں ریاست میں ایک متنازع قانون متعارف کرایا تھا جس کے مطابق حکومت کے تحت چلنے والے تمام مدارس کو ریگولر اسکولوں میں بدل دیا جائے گا جہاں عام تعلیم ہوتی ہے۔

رواں سال جنوری تک ریاست میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مدرسوں کی تعداد 3000 تھی۔ ان میں اکثریت دیوبندی اور بریلوی مکتبِ فکر کے مدرسوں کی ہے۔

بھارتی کشمیر کے بعد ریاست آسام میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ ریاست کے 31 میں سے کم از کم نو اضلاع میں مسلم آبادی 50 فی صد سے زائد ہے۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست کی مجموعی آبادی تین کروڑ 60 لاکھ ہے جس میں ایک کروڑ 40 لاکھ یعنی تقریباً 40 فی صد آبادی مسلمانوں کی ہے۔

ہیمنت بسوا سرما نے ریاست کرناٹک کے شہر بیلگاوی میں جمعرات کو حکمرا ں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ بنگلہ دیش سے لوگ شمال مشرقی ریاستوں میں آتے ہیں اور ہماری تہذیب و ثقافت کے لیے خطرہ پیدا کرتے ہیں۔

گزشتہ سال دہشت گرد سرگرمیوں کے الزام میں آسام پولیس نے متعدد مدرسوں کو منہدم کر دیا تھا۔ جب اس پر مدارس کے ذمہ داروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تو پولیس نے کہا کہ یہ مدرسے غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے اور ان میں حفاظتی انتظامات کا فقدان تھا۔

اب جب کہ وزیر اعلیٰ نے تمام مدرسوں کو بند کرنے کا بیان دیا ہے تو ایک بار پھر احتجاج کیا جا رہا اور اس بیان کی مذمت کی جا رہی ہے۔

'کیا وزیرِ اعلٰی ملک کا آئین نہیں مانتے؟'

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کا کہنا ہے کہ ملک کا دستور تمام اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی اجازت دیتا ہے لیکن آسام کے وزیر اعلیٰ مدرسوں کو بند کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس کا مطلب وہ دستور کو نہیں مانتے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں ہندوتوا کی پالیسی کے تحت کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کو ماننے والے آئین و دستور میں یقین نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں آئین و قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ بولنا، احتجاج کرنا اور لکھنا ہر شہری کا حق ہے لیکن یہ حق چھینا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق آسام سے ہزاروں مسلمانوں کو غیر ملکی کہہ کر نکال دیا گیا ہے جب کہ بعض افراد کے پاس 70-70 برس پرانے کاغذات اور دستاویزات ہیں۔

اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ حکومت کے ذمے داران اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں اس امید کا اظہار کیا کہ جب دوسری پارٹی کی حکومت آئے گی تو ان معاملات پر کمیشن قائم کرے گی اور آئین و قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا مزید کہنا تھا کہ جن مدرسوں کو منہدم کیا گیا یا جن کو بند کیا جا رہا ہے ان کے ذمے داروں کو اور سرکردہ مسلمانوں کو بھی اس کارروائی کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نچلی عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا۔ صرف سپریم کورٹ سے امید ہے کہ وہ انصاف کرے گی۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق آسام کی حکومت 2024 میں ہونے والے پارلیمانی اور 2026 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اس قسم کے اقدامات کر رہی ہے تاکہ اس سے انتخابی فائدہ اٹھایا جا سکے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا تعلق بھی سیاست سے ہے۔ حکومت نے گزشتہ ماہ کم عمری کی شادیوں کے خلاف مہم شروع کی تھی جس کے تحت پولیس نے 3483 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ حکومت کے مطابق اپریل 2021 سے رواں سال کے فروری ماہ تک کم عمری کی شادیوں کے 4670 واقعات پولیس میں درج کیے گئے ہیں۔

گرفتار شدگان میں مبینہ طور پر کم عمری کی شادی کرنے، کرانے یا اس میں معاونت کرنے والے شوہر، والدین، بھائی، قاضی اور پنڈت شامل ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گرفتار شدگان میں 55 فی صد مسلمان اور 45 فی صد غیر مسلم ہیں۔

ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں ان اعداد وشمار پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ گرفتار شدگان کی فہرست جاری کرے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔ انہوں نے بھی ان کارروائیوں کو سیاسی قرار دیا۔

وزیر اعلیٰ نے گزشتہ سال یہ دعویٰ کیا تھا کہ آسام جہادی سرگرمیوں کا اڈہ بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں القاعدہ سے ملحق دہشت گرد تنظیموں کے پانچ نیٹ ورکس کو بے نقاب کیا گیا تھا۔


آسام کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس بھاسکر جیوتی مہنتا نے رواں سال کے جنوری میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ آسام پولیس نے گزشتہ سال دہشت گرد تنظیم ’انصار ال بنگلہ ٹیم‘ (اے بی ٹی) اور ’القاعدہ ان انڈین سب کانٹی ننٹ‘ (اے کیو آئی ایس) کے نو نیٹ ورکس کو بے نقاب اور 53 مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا تھا۔ ان کے مطابق گرفتار شدہ متعدد جہادی پرائیوٹ مدرسوں میں استاد تھے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آسام کی قابل ذکر مسلم آبادی انتہاپسند تنظیموں کی فطری ہدف ہے۔

ریاستی حکومت نے گزشتہ سال ایک حکم نامہ جاری کرکے بیرون ریاست سے آسام جانے والے مدارس کے اساتذہ، آئمہ کرام اور موذنین کے لیے مقامی پولیس تھانے میں خود کو رجسٹرڈ کرنا لازمی قرار دے دیا ہے۔ حکومت کے مطابق اس کا مقصد جہادی سرگرمیوں کو روکنا ہے۔

وزیر اعلیٰ سرما نے رواں سال کے جنوری میں ایک بیان میں کہا تھا کہ مدرسوں کو اسکولوں میں تبدیل کرنے کے لیے مسلم برادری کے ساتھ مل کر کام کیا جا رہا ہے اور وہ اس میں حکومت کی مدد کر رہی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت خاص طور پر بنگلہ بولنے والی مسلم آبادی کو جہادیوں اور انتہاپسندوں کے خلاف لڑائی میں ایک اسٹیک ہولڈر بنانے کا تجربہ کر رہی ہے۔