|
غزہ کی پٹی میں جمعرات کی رات اور جمعے کے روز جاری رہنے والے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 40 فلسطینی مارے گئے ہیں۔ طبی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں نصیرات کیمپ کے مرکزی حصے میں ہوئیں۔
طبی عملے کے ارکان نے بتایا کہ انہوں نے نصیرات کیمپ کے شمالی حصوں سے، جن کا شمار قدیم ترین علاقوں میں ہوتا ہے، 19 فلسطینیوں کی لاشیں نکالی ہیں۔
بعد ازاں جمعہ کے روز، شمالی غزہ کی پٹی میں بیت لاہیا میں ایک مکان پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 10 فلسطینی ہلاک ہو گئے۔
طبی ماہرین نے بتایا کہ باقی ہلاکتیں غزہ کی پٹی کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں ہوئیں۔
جمعہ کو اسرائیلی فوج نے کوئی تازہ بیان جاری نہیں کیا، لیکن جمعرات کو فوج کے بیان میں کہا گیا تھا کہ فوجی دستے غزہ کی پٹی میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نصیرات کے شمالی اور مغربی علاقوں میں اسرائیلی ٹینک جمعرات کو داخل ہوئے تھے۔ جبکہ وہ شمالی علاقوں سے جمعے کو واپس چلے گئے، لیکن کیمپ کے مغربی علاقوں میں وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فلسطینی سول ایمرجینسی سروس نے کہا ہے کہ اس کی امدادی ٹیمیں، گھروں میں پھنسے ہوئے لوگوں کی ٹیلی فون کالز پر مدد فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
درجنوں فلسطینی جمعے کے روز ان علاقوں میں واپس لوٹے جہاں فوج پیچھے ہٹ گئی تھی تاکہ وہ اپنے گھروں کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لے سکیں۔
سڑکوں پر پڑی ہوئی لاشوں کو ان کے رشتے دار اور طبی عملہ سفید چادروں اور کمبلوں سے ڈھاپنے کے بعد اسٹریچر پر ڈال کر لے گئے۔
غم سے نڈھال ایک شخص زمین پر رکھے اسٹریچر پر پڑی لاش کے پاس آنسو بہاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ میری بیوی مجھے معاف کر دو، میری ابتسام مجھے معاف کر دو۔
طبی عملے نے بتایا کہ جمعے کو ایک اسرائیلی ڈرون نے غزہ کی پٹی کے شمال میں واقع بیت لاہیا کے کمال عدوان اسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ کے سربراہ احمد الکحلوت کا ہلاک کر دیا۔ فوج اس علاقے میں اکتوبر کے اوائل سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
رائٹرز نے ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ فوج کا کہنا ہے کہ اسے اس جگہ یا ان اوقات میں ہونے والے کسی بھی حملے کا علم نہیں ہے۔
کمال عدوان اسپتال غزہ کی پٹی کے شمالی حصے کے تین طبی مراکز میں سے ایک ہے۔ لیکن ادویات، ایندھن اور خوراک کی قلت کے باعث وہاں بمشکل ہی کام ہوتا ہے۔ طبی عہدے داروں کا کہنا ہے اسپتال کازیادہ تر طبی عملہ یا تو حراست میں ہے یا اسے اسرائیلی فوج نے یہاں سے نکال دیا ہے۔
نقل مکانی
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کے دستے بیت لاہیا، بیت حنون اور جبالیہ کے علاقوں میں عسکریت پسندوں کو دوبارہ منظم ہونے اور حملے کرنے سے روکنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ان آبادیوں کے مکینوں نے بتایا کہ فوج بیت لاہیا اور بیت حنون کی آبادیوں کے ساتھ ساتھ جبالیہ کے پناہ گزین کیمپ کو بھی خالی کروا رہی ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق اسرائیلی حکام نے 30 کے لگ بھگ ان فلسطینیوں کو رہا کر دیا ہے جنہیں اس نے گزشتہ چند ماہ کے دوران غزہ میں کارروائیوں کے دوران حراست میں لیا تھا۔ طبی عملے نے بتایا کہ رہا ہونے والے فلسطینی اپنے طبی معائنے کے لیے جنوبی غزہ کے ایک اسپتال میں گئے ہیں۔
رہائی پانے والے فلسطینیوں نے بتایا کہ حراست کے دوران ان پر تشدد کیا گیا اور ناروا سلوک روا رکھا گیا۔ اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کے لیے کئی مہینوں کی بات چیت میں، جس میں اب تعطل ہے، بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔
SEE ALSO: غزہ پر اسرائیلی حملے، فلسطینیوں میں احساس تنہائی اور لبنان جنگ بندی کے بعد امیدیں بھیجب کہ دوسری جانب اسرائیل اور لبنان کے عسکری گروپ حزب اللہ کے درمیان، جو اس جنگ میں حماس کا اتحادی ہے، بدھ سے جنگ بندی شروع ہو گئی ہے۔
منگل کو لبنان معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے، امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل اور حماس پر زور دیا کہ وہ اس لمحے سے فائدہ اٹھائیں۔
غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں 14 مہینوں سے جاری اسرائیل حماس جنگ میں اب تک تقریباً 44300 افراد کو ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً تمام آبادیوں کے مکینوں کو کم از کم ایک بار بے گھر ہونا پڑا ہے اور آبادیوں کے زیادہ تر حصے ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
اس جنگ کا آغاز گزشتہ سال 7 اکتوبر میں حماس کے اسرائیل پر ایک بڑے اور اچانک حملے کے بعد ہوا۔ اس حملے میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے اور 250 سے زیادہ لوگوں کو عسکریت پسند یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔ جن میں سے درجنوں اب بھی ان کی قید میں ہیں۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)