شاپنگ مال پر شدت پسندوں کے حملے کے وقت وہاں موجود 61 افراد اب بھی لاپتہ ہیں جن کی لاشیں تلاش کی جارہی ہیں۔
واشنگٹن —
کینیا میں گزشتہ ہفتے شدت پسندوں کے حملے کا نشانہ بننے والے شاپنگ مال کے ملبے سے لاپتہ افراد کی باقیات کی تلاش کا کام جاری ہے۔
بین الاقوامی امدادی تنظیم 'ریڈ کراس' کے مقامی اہلکاروں کے مطابق شاپنگ مال پر شدت پسندوں کے حملے کے وقت وہاں موجود 61 افراد اب بھی لاپتہ ہیں جن کی لاشیں تلاش کی جارہی ہیں۔
دارالحکومت نیروبی کے 'ویسٹ گیٹ' نامی شاپنگ مال پر حملے اور وہاں چار روز تک عام شہریوں کو یرغمال بنائے رکھنے کی واردات کی ذمہ داری صومالیہ کے شدت پسند گروہ 'الشباب' نے قبول کی تھی۔
حکام کے مطابق اس حملے میں 72 افراد مارے گئے تھے جب کہ شدت پسندوں نے شاپنگ مال کے بڑے حصے کو دھماکوں سے اڑا دیا تھا۔
دریں اثنا 'الشباب' نے ایک بار پھر دھمکی دی ہے کہ اگر کینیا نے صومالیہ سے اپنے فوجی دستے واپس نہ بلائے تو اس پر مزید حملے کیے جائیں گے۔
بدھ کی شب 'ٹوئٹر' پر جاری کیے جانے والے ایک پیغام میں 'الشباب' کے رہنما مختار ابو زبیر نے کہا ہے کہ کینیا "بے تحاشا خون خرابے" اور "اقتصادی زوال" کے لیے تیار رہے۔
'الشباب' کے رہنما نے کینیا کی جانب سے صومالیہ میں "فوجی مداخلت" کی حمایت کرنے پر مغربی ممالک پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔
یاد رہے کہ کینیا نے دو سال قبل القاعدہ سے روابط رکھنے والی شدت پسند تنظیم 'الشباب' کے ساتھ لڑائی میں صومالی افواج کو مدد دینے کے لیے اپنے فوجی دستے پڑوسی ملک صومالیہ بھیجے تھے جو تاحال وہاں موجود ہیں۔
صومالیہ فوج بھیجنے کے بعد سے 'الشباب' کے شدت پسند کینیا کو وقفے وقفے سے حملوں کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے کیا جانے والا حملہ سب سے ہلاکت خیز رہا ہے۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق 10 مختلف ملکوں سے ہے۔
صومالی شدت پسندوں نے جمعرات کو صومالیہ کی سرحد کے نزدیک واقع کینیا کے ایک قصبے پر کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے جس میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اسی نوعیت کا ایک حملہ بدھ کو وجیر نامی قصبے میں بھی کیا گیا تھا جس میں ایک فرد ہلاک ہوا تھا۔
بین الاقوامی امدادی تنظیم 'ریڈ کراس' کے مقامی اہلکاروں کے مطابق شاپنگ مال پر شدت پسندوں کے حملے کے وقت وہاں موجود 61 افراد اب بھی لاپتہ ہیں جن کی لاشیں تلاش کی جارہی ہیں۔
دارالحکومت نیروبی کے 'ویسٹ گیٹ' نامی شاپنگ مال پر حملے اور وہاں چار روز تک عام شہریوں کو یرغمال بنائے رکھنے کی واردات کی ذمہ داری صومالیہ کے شدت پسند گروہ 'الشباب' نے قبول کی تھی۔
حکام کے مطابق اس حملے میں 72 افراد مارے گئے تھے جب کہ شدت پسندوں نے شاپنگ مال کے بڑے حصے کو دھماکوں سے اڑا دیا تھا۔
دریں اثنا 'الشباب' نے ایک بار پھر دھمکی دی ہے کہ اگر کینیا نے صومالیہ سے اپنے فوجی دستے واپس نہ بلائے تو اس پر مزید حملے کیے جائیں گے۔
بدھ کی شب 'ٹوئٹر' پر جاری کیے جانے والے ایک پیغام میں 'الشباب' کے رہنما مختار ابو زبیر نے کہا ہے کہ کینیا "بے تحاشا خون خرابے" اور "اقتصادی زوال" کے لیے تیار رہے۔
'الشباب' کے رہنما نے کینیا کی جانب سے صومالیہ میں "فوجی مداخلت" کی حمایت کرنے پر مغربی ممالک پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔
یاد رہے کہ کینیا نے دو سال قبل القاعدہ سے روابط رکھنے والی شدت پسند تنظیم 'الشباب' کے ساتھ لڑائی میں صومالی افواج کو مدد دینے کے لیے اپنے فوجی دستے پڑوسی ملک صومالیہ بھیجے تھے جو تاحال وہاں موجود ہیں۔
صومالیہ فوج بھیجنے کے بعد سے 'الشباب' کے شدت پسند کینیا کو وقفے وقفے سے حملوں کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے کیا جانے والا حملہ سب سے ہلاکت خیز رہا ہے۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق 10 مختلف ملکوں سے ہے۔
صومالی شدت پسندوں نے جمعرات کو صومالیہ کی سرحد کے نزدیک واقع کینیا کے ایک قصبے پر کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے جس میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اسی نوعیت کا ایک حملہ بدھ کو وجیر نامی قصبے میں بھی کیا گیا تھا جس میں ایک فرد ہلاک ہوا تھا۔