وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ارشد شریف کیس اور عمران خان پر فائرنگ کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کو الگ الگ خط لکھ دیے ہیں۔
سینیئر صحافی اور اینکر ارشد شریف کے جاں بحق ہونے کے حقائق جاننے کے لیے جوڈیشل کمشن بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمشن بنایا جائے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ کمشن ان سوالات پر خاص طور پر غور کرسکتا ہے۔
ارشد شریف نے اگست 2022 میں بیرون ملک جانے کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا۔ ارشد شریف کی بیرون ملک روانگی میں کس نے سہولت کاری کی۔ کوئی وفاقی یا صوبائی ایجنسی، ادارہ یا انتظامیہ ارشد شریف کو ملنے والی جان کو خطرے کی کسی دھمکی سے آگاہ تھے؟ اگر ارشد شریف کی جان کو خطرہ کی اطلاع تھی تو اس سے بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کیے گئی۔
وزیراعظم شہباز شریف کا چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کو دوسرا خط
وزیر اعظم نے چیف جسٹس پاکستان کے نام عمران خان پر فائرنگ کے واقعے کے حقائق جاننے کے لیے جوڈیشل کمشن بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمشن بنایا جائے۔ کمیشن ان سوالات پر خاص طور پر غور کرسکتا ہے۔
کارواں کی حفاظت کی ذمہ داری کون سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تھی؟ کارواں کی حفاظت کے لیے مروجہ حفاظتی اقدامات اور سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز لاگو کئے گئے؟ اور کیا ان پر عمل کیا گیا؟ حادثے کے اپنے حقائق کیا ہیں؟ ایک سے زیادہ شوٹرز کی موجودگی کی اطلاع، جوابی فائرنگ، مجموعی طور پر نشانہ بننے والوں کی تعداد، ان کے زخموں کی نوعیت سے متعلق حقائق کیا ہیں؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے مروجہ تفتیشی طریقہ کار کو اختیار کیا؟ وقوع کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے شہادتیں جمع کرنے اور صورتحال سے نمٹنے کے مروجہ طریقہ کار کو اختیار کیا؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو ضابطے کی کیا خامیاں اور کمزوریاں سامنے آئیں؟ ضابطے کی ان کوتاہیوں کا ذمہ دار کن انتظامی حکام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومت کے عہدیداروں کو ٹھہرایا گیا؟
کیا وقوعہ کی تحقیقات کے عمل میں دانستہ رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں ۔ اگر رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں تو یہ عناصر کون ہیں؟ اور ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیا یہ قاتلانہ سازش تھی جس کا مقصد واقعی پی ٹی آئی چئیرمن کو قتل کرنا تھا یا یہ محض ایک فرد کا اقدام تھا؟ ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کے بھی ذمہ دار عناصر کون ہیں ؟
قانون کی حکمرانی کے مفاد میں اس درخواست پر عمل پر وفاقی حکومت مشکور ہوگی۔اس مقصد کے حصول میں وفاقی حکومت کمشن کو مکمل معاونت فراہم کرے گی ۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کی ہلاکت اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر فائرنگ کے بعد وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں پر شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں، لہذٰا عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تحقیقات ہوں۔
عمران خان کا وزیرِ آباد واقعے کی ایف آئی آر چیلنج کرنے کا فیصلہ
تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیرِ آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر فائرنگ کے واقعے میں پولیس کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
منگل کو لاہور میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد گرفتار ہونے والے ملزم نوید کا بیان جھوٹ پر مبنی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو اُنہوں نے ایف آئی آر کے لیے نامزد کیا ہے، اگر وہ بے قصور ہوں تو تفتیش سے نکل جائیں۔
خیال رہے کہ عمران خان نے مطالبہ کیا تھا کہ ایف آئی آر میں وزیرِ اعظم شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیصل نصیر کا نام شامل کیا جائے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اُنہیں معلوم تھا کہ یہ اُنہیں قتل کرائیں گے اس لیے پہلے ہی ایک ویڈیو ریکارڈ کرا دی۔ جب ہم مضبوط ہونے لگے تو انہوں نے ایک اور منصوبہ بنا لیا اور واقعے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر ملک کا نظام چلانا ہے تو پھر وزیرِ اعظم کو اختیارات دینا ہوں گے۔ سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ کبھی اتحادی حکومت نہیں بننی چاہیے ورنہ بلیک میل ہوتے رہیں گے۔
صوبائی حکومتیں اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کریں: رانا ثناء اللہ
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ پنجاب میں جھوٹی ایف آئی آر درج کرانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پنجاب کے وزیرِ قانون کی حیثیت سے وہ ساری صورتِ حال جانتے ہیں لیکن عمران خان اپنی مرضی کی ایک ایف آئی آر درج نہیں کرا سکے۔ ان میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ مقدمہ درج کرا سکیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا مختلف شہروں میں تحریکِ انصاف کے احتجاج کے حوالے سے کہنا تھا کہ سڑکوں کی بندش کو زیادہ دیر تک چلنے نہیں دیا جائے گا۔ صوبائی حکومتوں کو ان کے آئینی کردار کے مطابق اقدامات کا کہیں گے۔
احتجاج کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ پورے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں چند ہزار لوگ ہی احتجاج کر رہے ہیں۔ پولیس کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ شاہراہوں کو بحال رکھیں۔ تین دن ہو گئے ہیں کروڑوں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ لانگ مارچ نہیں ہے بلکہ دو صوبے وفاق پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
عمران خان پر حملے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وزیرآباد کے واقعے میں گرفتار شخص ہی ملزم ہے اور کوئی ملزم نہیں ہے۔ گرفتار ملزم کا کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس نے خود حملے کا فیصلہ کیا۔ وہ رواں برس فروری میں بیرونِ ملک سے واپس آیا ہے۔ اس سے جس بھی شخص کا کبھی رابطہ ہوا ہے اس کو شاملِ تفتیش کیا جا چکا ہے۔
ارشد شریف کی کینیا میں ہلاکت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تفتیشی ٹیم کینیا سے واپس آ گئی ہے اس نے ابتدائی بریفنگ دی ہے۔ ابتدائی تفتیش میں سامنے آیا ہے کہ ان کو قتل کیا گیا ہے، ان کو ہدف بنا کر نشانہ بنایا گیا۔
ان کے مطابق مزید تفتیش میں اصل حقائق سامنے آئیں گے۔
ان کے مطابق کینیا میں پولیس پر الزامات ہیں کہ وہ ایسے واقعات میں ملوث رہی ہے کہ پیسے لے کر کسی کو نشانہ بنایا جائے۔
سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا مستعفی ہونے کا اعلان
پیپلزپارٹی کے رہنما اور سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ پارٹی قیادت کی ہدایت پر وہ بطور سینیٹر مستعفی ہو رہے ہیں۔
منگل کو ایک ٹوئٹ میں مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ اُنہیں بتایا گیا ہے کہ پارٹی قیادت اُن کے کچھ بیانات سے خوش نہیں ہے۔ لہذٰا وہ سینیٹ کی رُکنیت سے مستعفی ہو جائیں۔
مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ پارٹی قیادت کی ہدایت پر وہ بخوشی اپنا استعفیٰ کل چیئرمین سینیٹ کو دے دیں گے۔
خیال رہے کہ مصطفی نواز کھوکھر نے حال ہی میں پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کی مبینہ ویڈیو کے معاملے پر سخت ردِعمل دیا تھا۔
مصطفی نواز کھوکھر نے ٹوئٹ کی تھی کہ یہ ویڈیو پارلیمان کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس ٹوئٹ کے بعد فوج کے ایک بریگیڈیئر نے اُنہیں فون کر کے مذکورہ ویڈیو سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن اُن کے بقول اُنہوں نے واضح کیا تھا کہ وہ پارلیمان اور اپنے کولیگ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اعتزاز احسن کی عمران خان سے ملاقات
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے۔
تحریکِ انصاف کے مطابق اعتزاز احسن نے لاہور میں زمان پارک میں پی ٹی آئی کے چیئرمین سے ملاقات کی ہے۔
انہوں نے وزیر آباد میں فائرنگ سے زخمی ہونے والے سابق وزیرِ اعظم کی عیادت کی۔
عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر مسترد، قانونی ماہرین کا اجلاس طلب
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نےمرضی کے مطابق ایف آئی آر درج نہ ہونے پر مشاورت کے لیے پارٹی رہنماؤں اور قانونی ماہرین کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔
لاہور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیا ء الرحمٰن کے مطابق عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک میں منگل کو طلب کردہ اجلاس میں حافظ آباد واقعے کی ایف آئی آر میں نامزد کردہ افراد کے نام شامل نہ کرنے سے متعلق قانونی ماہرین سے رائے لی جائے گی۔
اجلاس کے دوران لانگ مارچ کے حفاظتی اقدامات اور تیاریوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
اداروں کو عوام کے حقوق ماننے ہوں گے: فواد چوہدری
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان میں فوج ایک مسلمہ طاقت ہے لیکن عوام اب عمران خان کی قیادت میں ایک منظم قوت ہیں۔
فواد چوہدری نے منگل کو سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ اداروں کو عوام کے حقوق ماننے ہوں گے، اس معاملے کا حل ہونا ضروری ہے۔عوام یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ ایک گروہ قانون سے بالاتر رہے۔
انہوں نے کہا کہ صحافی ارشد شریف، سینیٹر اعظم سواتی اور وزیر آباد حملے کے معاملے میں انصاف ہوگا۔
ان کے بقول وزیر آباد سانحہ کا پرچہ درج نہیں ہو سکا کیوں کہ ملک میں قانون کی عمل داری نہیں بلکہ طاقت ور گروہ ملک کے سیاسی اور عدالتی نظام کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے پیر کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں اور زیرِ حراست مبینہ ملزم نوید کا نام بھی شامل ہے۔
تاہم عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں کا اصرار ہے کہ مقدمے میں وزیر اعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ اور خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) کے کاؤنٹر انٹیلی جنس شعبے کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر کے نام شامل کیے جائیں۔
پاکستان فوج نے گزشتہ ہفتے جاری ایک بیان میں عمران خان کے الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ عمران خان کے ادارے اور مخصوص افسر کے خلاف بے بنیاد الزامات ناقابل قبول ہیں۔اس معاملے کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ ادارے اور اس کے سینیئر افسر کے خلاف ہتک عزت پر قانونی کارروائی کی جائے۔
عمران خان کا ایف آئی آر میں تین افراد کو نامزد کرنے پر اصرار
عمران خان نے پیر کو امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو انٹرویو کے دوران ایک مرتبہ پھر مطالبے کو دہرایا کہ جب تک ان کے نامزد کردہ ملزمان کو مقدمے میں شامل نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتی۔
خاتون صحافی بیکی اینڈرسن کے اس سوال پر کہ ان کے پاس الزامات کے شواہد موجود ہیں؟ عمران خان یہی کہتے رہے کہ اس کے لیے پسِ منظر کا جاننا بہت ضروری ہے تاہم انہوں نے اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ تحریکِ انصاف نے عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کو مسترد کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما مسرت چیمہ کہتی ہیں کہ ایف آئی آر کے نام پرقوم کے ساتھ کھیلا گیا ہے کیوں کہ مقدمے میں ان افراد کا نام ہی نہیں ہے جن پر مدعی کو شک ہے۔