بچوں کے سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی؛ آسٹریلیا میں کوئی خوش تو کوئی ناراض

  • آسٹریلیا میں 16 برس سے کم عمر افراد کے سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی کا معاملہ موضوعِ بحث ہے۔
  • آسٹریلوی وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد نوجوان نسل کی ذہنی اور جسمانی صحت کو یقینی بنانا ہے۔
  • بعض حلقے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
  • کچھ ٹین ایجرز کا کہنا ہے کہ وہ اس پابندی کے باوجود کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گے۔

آسٹریلیا میں 16 سال سے کم عمر افراد پر سوشل میڈیا کی پابندی کے قانون پر بعض حلقے اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں جب کہ کچھ ناراض ہیں۔

آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام سے دیگر ممالک کو بھی ترغیب ملے گی جب کہ بعض سوشل میڈیا کمپنیوں بشمول 'ٹک ٹاک' کا کہنا ہے کہ ایسی پابندیاں نوجوانوں کو انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔

آسڑیلیا کے قانون سازوں نے جمعرات کو ایک تاریخی قانون کی منظوری دی تھی جس کے تحت 16 سال سے کم عمر افراد کے ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹاگرام اور ایکس جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

سینیٹ میں 19 کے مقابلے میں 34 ووٹوں سے منظور ہونے والے اس قانون میں سوشل میڈیا کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر نوجوانوں کو اکاؤنٹس بنانے سے روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔

نئے قانون پر عمل درآمد میں ناکامی پر سوشل میڈیا کمپنیوں کو پانچ کروڑ آسٹریلوی ڈالر تک کے جرمانے کا سامنا ہو سکتا ہے جو تین کروڑ 25 لاکھ امریکی ڈالر کے لگ بھگ رقم ہے۔

'سوشل میڈیا کمپنیاں ہمارے بچوں کا تحفظ یقینی بنائیں'

قانون کی منظوری کے بعد جمعے کو ایک بیان میں آسٹریلوی وزیرِ اعظم انتھونی البانیز کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی اب یہ ذمے داری ہے کہ وہ ہمارے بچوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔

رواں ماہ کے آغاز پر اس مجوزہ قانون کی تفصیلات بتاتے ہوئے آسٹریلوی وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ 14 سال کے بچے ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب آپ کی زندگی میں تبدیلیاں آ رہی ہیں، آپ بالغ ہو رہے ہیں اور ان چیزوں تک رسائی بھی حاصل کر رہے ہیں تو یہ واقعی مشکل وقت ہو سکتا ہے۔

شہریوں کا ردِعمل

سڈنی کی رہائشی فرانسسکا سامباس کے بقول، "میرا خیال ہے کہ یہ پابندی بالکل ٹھیک ہے کیوں کہ بعض اوقات بچے ایسا مواد دیکھ لیتے ہیں جس تک اُنہیں رسائی نہیں ہونی چاہیے۔"

اٹھاون سالہ شون کلوز اس پابندی پر سخت تنقید کرنے والوں میں شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ "مجھے لگتا ہے اس حکومت نے جمہوریت کو چھین کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا ہے۔ وہ ایسے قوانین بنا کر لوگوں پر مسلط کیسے کر سکتے ہیں۔"

دوسری جانب بعض ٹین ایجرز کا کہنا ہے کہ وہ اس پابندی کے باوجود کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گے۔

فرانس اور امریکہ کی بعض ریاستوں نے بھی ایسے قوانین منظور کیے ہیں جو والدین کی اجازت کے بغیر بچوں کو سوشل میڈیا کے استعمال سے روکتے ہیں۔

امریکی ریاست فلوریڈا میں 14 سال سے کم عمر بچوں پر اس نوعیت کی پابندی کا قانون 'بولنے کی آزادی' کے حق کی بنیاد پر چیلنج کر دیا گیا تھا۔

آسٹریلوی حکام کے مطابق رواں برس کے آغاز پر پارلیمانی انکوائری میں کئی والدین نے یہ انکشاف کیا تھا کہ انٹرنیٹ پر ہراسانی اور تشدد پر اُکسانے کے بعد اُن کے بچوں نے خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ یہی واقعات اس قانون کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنے۔

لیکن سوشل میڈیا کمپنیاں اور بعض قانون ساز کہتے ہیں کہ اس قانون کے لیے ضروری جانچ پڑتال نہیں کی گئی۔

نوجوانوں میں مقبول ویڈیو شیئرنگ ایپ 'ٹک ٹاک' کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سارے عمل میں جلدبازی سے کام لیا گیا اور یہ بچوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔

ترجمان نے کہا "ہمیں مایوسی ہوئی ہے کہ آسٹریلوی حکومت نے بہت سے ماہرینِ نفسیات، آن لائن سیفٹی اور دیگر ماہرین کے مشوروں کو نظر انداز کیا ہے جنہوں نے پابندی کی سختی سے مخالفت کی تھی۔"

'میٹا' ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ تیزی کے ساتھ کی جانے والی اس قانون سازی سے قبل شواہد پر صحیح طریقے سے غور نہیں کیا گیا۔

تاہم آسٹریلوی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا "میں جانتا ہوں کہ اس پابندی کے نتائج آئیڈیل نہیں ہوں گے۔ جیسے 18 سال سے کم عمر افراد پر شراب پینے کی پابندی کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کم عمر افراد شراب نہیں پیتے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ درست سمت میں اٹھایا جانے والا قدم ہے۔"

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے آسٹریلیا کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں جس کی نئی انتظامیہ میں ایلون مسک کا اہم کردار ہو گا۔

ایلون مسک نے مجوزہ پابندی پر 'ایکس' پر اپنی پوسٹ میں کہا تھا کہ "لگتا ہے کہ تمام آسٹریلینز اب انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے بیک ڈور راستہ اختیار کریں گے۔"

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔