مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں جاری ’آزادی مارچ‘ ختم کرنے اور ’پلان بی‘ پر عمل درآمد کا اعلان کیا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا ’پلان اے‘ ناکام ہوگیا۔ جس کے بعد مولانا نے ’پلان بی‘ کا اعلان کیا ہے۔ یہ پلان اے، بی اور سی ہے کیا اور مولانا کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟۔
’پلان اے‘ کیا تھا؟
پلان اے کے تحت مولانا فضل الرحمٰن نے کراچی سے اسلام آباد تک آزادی مارچ کیا۔ جس میں انہیں مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن بیشتر افرادی قوت جمعیت علمائے اسلام، ف سے ہی تعلق رکھتی تھی۔
مولانا نے 27 اکتوبر کو اس مارچ کا آغاز کیا اور 31 اکتوبر کو رات گئے اسلام آباد پہنچے۔ اس سے قبل مولانا کا اعتماد اور مارچ میں شریک افراد کی تعداد دیکھ کر حکومتی شخصیات بھی خاصی پریشان نظر آ رہی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر تکرار بھی کی جا رہی تھی کہ مولانا کبھی گیلی جگہ پر پاؤں نہیں دھرتے۔ انہیں لازماً کسی جانب سے اشارہ ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اسلام آباد آ رہے ہیں۔
مولانا کے کراچی سے اسلام آباد سفر کے دوران حکومت شدید پریشان رہی اور اس دوران حکومتی مذاکراتی کمیٹی اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے مذاکرات کرتی رہی۔
آزادی مارچ کے دوران مولانا کے ساتھ ہجوم دیکھ کر حکومت مخالف خاصے پرجوش تھے کہ اتنا بڑا مجمع اور حالات دیکھ کر شاید عمران خان یا پھر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے عمران خان پر کوئی دباؤ آ جائے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ حکومت اپوزیشن مذاکرات ناکام اور مولانا کی طرف سے استعفیٰ کی تکرار نے ان مذاکرات کو بھی ختم کر دیا۔ جس کے بعد گذشتہ تین روز سے اپوزیشن اور حکومت کا کوئی رابطہ نہ تھا۔ تقریباً 13 دن گزرے، جس کے بعد مولانا نے اب پلان بی کا اعلان کیا ہے۔
پلان بی ہے کیا؟
پلان بی جس کا چرچہ گذشتہ کئی دن سے مولانا فضل الرحمٰن کر رہے ہیں، اس کے تحت مولانا ملک کے مختلف شہروں کو منسلک کرنے والی اہم شاہراہوں کو بلاک کرکے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔
ماضی میں ایسے دھرنے دیکھنے میں آئے جن میں کم تعداد کے ساتھ اہم شاہراہوں کو بلاک کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے گئے۔ ایسی ایک مثال بلوچستان میں ہزارہ شیعہ ہلاکتوں کے بعد مجلس وحدت المسلمین کی درخواست پر شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملک کی اہم شاہراہوں میں ایسے پوائنٹس پر دھرنے دیے جہاں سے ٹریفک کو ہر حال میں گزرنا پڑتا تھا۔ ان دھرنوں کی وجہ سے ملک بھر میں ٹریفک کا نظام تقریباً مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔
مولانا بھی بظاہر ایسا ہی کچھ کرنے کے خواہش مند نظر آرہے ہیں۔ اس عمل کا آغاز بلوچستان سے ہوچکا ہے،بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں جے یو آئی (ف) اور پشتونخوا میپ کے کارکنوں نے آزادی مارچ کے پلان بی کے تحت سید حمید کراس کے مقام پر احتجاج کرتے ہوئے چمن شاہراہ کو ہر قسم کے ٹریفک کے لیے بند کردیا۔چمن شاہراہ کی بندش سے سینکڑوں چھوٹی بڑی گاڑیاں پھنس گئیں جس کے باعث مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔
اسی پلان کے تحت، جمعرات کے روز خیبرپختونخوا کو راولپنڈی سے ملانے والی اہم شاہراہوں جب کہ پنجاب میں بزدار شاہراہ کو بھی بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کے لیےشاہراہ ریشم، خیبرپخوانخواہ میں لوئر دیر اور انڈس ہائی وے کو بند کرنا بھی پلان بی کا حصہ ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کراچی میں حب ریور روڈ، حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی کے گڑھ سکھر میں موٹروے، گھوٹکی سے پنجاب میں داخل ہونے والی شاہراہ اور کندھ کوٹ سے پنجاب میں داخل ہونے والے راستوں کو بند کیا جائے گا۔
ابتدائی طور پر ان شاہراہوں کو بند کیے جانے کے بعد مختلف اضلاع میں شہری سڑکوں کو بند کیا جائے گا اور حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے اسلام آباد کے دھرنے میں موجود مظاہرین کو اپنے اپنے اضلاع میں پلان بی پر مؤثر انداز میں عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔
SEE ALSO: 'دھرنا ختم ہوا ہے، مارچ نہیں'اسلام آباد میں آزادی مارچ کا دھرنا ختم
اسلام آباد شہر میں پشاور موڑ کے قریب شرکا نے31 اکتوبر کی رات پڑاؤ ڈالا اور یکم نومبر کو اپنے پہلے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم سے دو روز میں مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے آزادی مارچ کو دھرنے میں تبدیل کر دیا۔ اس دن کے بعد سے یہاں موجود مظاہرین مختلف کھیلوں یا اسلام آباد کی سیاحت میں مصروف رہتے اور اس کے بعد شام گئے پنڈال میں ہونے والے جلسے کے لیے واپس پہنچ جاتے تھے۔
دھرنا ختم کرنے کا اعلان مولانا فضل الرحمٰن نے بدھ کی شام اپنے خطاب میں کیا اور کارکنوں کو ایک نئے محاذ پر جانے کی ہدایت کی، مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دو ہفتوں سے ایک قومی سطح کا اجتماع تسلسل کے ساتھ ہوا، ہماری قوت یہاں پر جمع ہیں جب کہ ہمارے دیگر کارکنان یہاں دھرنے میں شریک افراد کے تعاون کے منتظر ہوں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سڑکوں پر موجود اپنے ساتھیوں کے پاس جائیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ دیوار ہل چکی ہے اس کو ایک اور دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ ہم اگلے مرحلے میں اس دیوار کو گرا دیں گے۔ اب ہم شہروں کے اندر نہیں بلکہ شاہراہوں پر بیٹھیں گے، جس طرح ہم یہاں پر امن تھے اگلے محاذ پر بھی پرامن رہیں گے۔
جے یو آئی ف سربراہ نے کہا کہ یہ تحریک چلے گی، حکومت استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کرائے۔ ہم اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
مولانا کو مقاصد کے حصول میں ناکامی کیوں ہوئی؟
جمعیت علماء اسلام کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو یکم نومبر کو دو دن میں استعفیٰ دینے کی ڈیڈ لائن دی گئی، جس کے بعد حکومت نے مذاکرات کا آغاز کیا۔ مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ لیکن اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات اور وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ برقرار رہنے پر فریقین کے درمیان ڈیڈلاک پیدا ہوا جو آخر تک برقرار رہا اور مولانا فضل الرحمٰن کو کامیابی نہ مل سکی۔
SEE ALSO: مذاکراتی ٹیم وزیر اعظم کا استعفیٰ لے کر آئے، مولانا فضل الرحمنحزب اختلاف کی دوسری جماعتوں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی مولانا فضل الرحمٰن کو وہ حمایت نہ مل سکی جس کی ان کو توقع تھی۔ دونوں جماعتوں نے دھرنے سے عملی طور پر علیحدگی اختیار کی اور صرف اخلاقی حمایت کا اعلان کیا،جمعیت علماء اسلام کی طرف سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں بھی چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے شرکت نہیں کی۔ پلان بی اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک کی طرف مارچ پر بھی جمعیت علماء اسلام ف دونوں جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
حکومت کے ساتھ عملی طور پر مذاکرات ختم ہونے کے بعد، مولانا کے پاس آپشنز کم سے کم ہوتے رہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں ایسی جگہ بیٹھے تھے جہاں حکومت کو ان کے بیٹھنے سے زیادہ فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ دھرنے کے مقام کے اطراف کی سڑکیں معمول کی مطابق چل رہی تھیں، جبکہ دھرنے کے شرکا بھی انتہائی پرامن رہے جنہوں نے امن و امان کی کوئی صورتحال پیدا نہ کی۔ لہذا، حکومت مطمئن رہی اور مولانا کا وزیر اعظم کے استعفیٰ کے لیے بنایا گیا پلان اے ناکامی سے دوچار ہوا۔
مولانا فضل الرحمٰن عوام کی نظر میں اپوزیشن لیڈر؟
مولانا کے حوالے سے ایک سوال تواتر کے ساتھ کیا جا رہا ہے کہ اس دھرنے سے مولانا کو کیا حاصل ہوا؟ مبصرین کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کو ایک عرصے سے ہر جماعت کے ساتھ چل کر وزارتیں لینے والی جماعت سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن مولانا نے اس بار طویل دھرنا اور طویل احتجاج کرکے خود کو منظم سیاسی قائد اور اپنی جماعت کو بڑی جماعتوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔
اپنے والد کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست میں رواداری اور لچک پائی جاتی ہے۔ فضل الرحمٰن نے ضیاء آمریت کے خلاف احتجاج بھی کیا، جیل بھی گئے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنی بھرپور کوشش کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا بھی بھرپور ساتھ دیا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور فوجی صدر پرویز مشرف کی حکومت کا حصہ بھی رہے۔
SEE ALSO: کیا مولانا کے پاس مذہب کارڈ کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا؟تجزیہ کاروں کی نظر میں آزادی مارچ نے مولانا کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کیا ہے اور وہ پارلیمان میں نہ ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ حکومتی اتحادی جماعت کے پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دھرنے سے مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن لیڈر بن گئے اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے مخالفین ان کی حکمت عملی پر تنقید کر رہے ہیں اور ٹوئٹر پر اس حوالے سے مختلف ٹرینڈ بھی بنے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد سے خالی ہاتھ جانے کو پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹر عمران خان کی فتح کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
خیبرپختونخواہ کے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن حواس باختہ ہو چکے ہیں ان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔ وہ اپنی شکست کا بدلہ پورے پاکستان سے لینا چاہتے ہیں۔ سڑکیں بند کرنے سے عوام کو تکلیف ہوگی۔شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
کب کیا ہوا؟
3ا کتوبر 2019: مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم کے استعفے اور نئے الیکشن کیلئے 27 اکتوبر سے اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ کا اعلان کیا۔
27 اکتوبر 2019: مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں آزادی مارچ کا کراچی سے باقائدہ آغاز ہوا۔
27 اکتوبر 2019: آزادی مارچ کا پہلا پڑاؤ سکھر میں ہوا۔
28 اکتوبر 2019: آزادی مارچ سکھر سے ملتان کی طرف سفر شروع کیا اور شرکا نے ملتان پہنچ کر قیام کیا۔
29 اکتوبر 2019: آزادی مارچ نے ملتان سے لاہور کی طرف سفر کیا اور رات لاہور میں قیام کیا۔
30 اکتوبر 2019: مارچ لاہور سے گجر خان کی طرف روانہ ہوا اور رات گجر خان کے قریب گزاری۔
31 اکتوبر 2019: آزادی مارچ گجر خان سے روانہ ہو کر روات سے ٹی چوک کے راستے وفاقی دالحکومت میں داخل ہو گیا اور ایچ نائن پشاور موڑ پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔
یکم نومبر 2019: مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے دو روز کی ڈیڈ لائن دی۔
4 نومبر 2019: حکومتی مذاکراتی ٹیم اور رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا اور حکومتی اتحادی جماعت ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے بھی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی۔
11 نومبر 2019: مذاکرات میں ناکامی کے بعد جمعیت علمائے اسلام نے ’پلان بی‘ کی منظوری دی۔
13 نومبر 2019 : مولانا فضل الرحمٰن نے ’پلان بی‘ پر عمل درآمد کا اعلان کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ’پلان بی‘ کے تحت ملک میں اہم شاہراہوں کو بلاک کیا جائے گا۔