ناگورنو کاراباخ میں آرمینیائی باشندوں کے نمائندوں نے آذربائیجان کی حکومت سے جمعرات کو ملاقات کی ہے جس کا مقصد الگ ہونے والے خطے کے مستقبل پر بات چیت کرنا ہے۔
آذربائیجان کے علاقے یولخ میں ہونے والی اس بات چیت سے ایک روز قبل ناگورنو کاراباخ میں مقامی جنگجو ہتھیار ڈالنے پر راضی ہو گئے تھے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس صورت حال کے بارے میں جمعرات کو بات چیت کرنے والی ہے۔
ناگورنو کاراباخ کے مرکزی شہر میں جمعرات کو گولیاں چلنے کی اطلاع ملی ۔ آرمینیائی اس شہر کو سٹیپناکرت کہتے ہیں جب کہ آذری لوگ خانکیندی کے نام سے پکارتے ہیں۔ نسلی آرمینیائی باشندوں نے آذربائیجان کو مورد الزام ٹھہرایا کہ اس نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے لیکن آذربائیجان کی وزارت دفاع نےاس الزام کی تردید کی۔
اس خطے میں روسی امن دستے تعینات ہیں۔ روس نے جمعرات کو کہا ہے کہ اس نے علاقے سے 5000 شہریوں کو نکال لیا ہے۔
آرمینیا کے دارالحکومت یریوان میں بدھ کے روز ہزاروں مظاہرین اکٹھے ہوئے اورانہوں نے حکومت پر زور دیا کہ ناگورنوکارا باخ میں آرمینیائی باشندوں کو تحفظ دیا جائے ۔ مظاہرین نے وزیر اعظم نکول پشینیان سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔
آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے بدھ کے روز ایک ٹیلی ویژن خطاب میں فتح کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ آذربائیجان نے خطے کی خودمختاری کو بحال کر دیا ہے۔
آذربائیجان نے کہا کہ اس نے منگل کے روز اپنی کارروائی کا آغاز کیا تھا جو بارودی سرنگ کے دھماکوں کا رد عمل تھا۔ ان دھماکوں سے خطے میں چار فوجی اور دو شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
ناگورنو کاراباخ کا علاقہ آذربائیجان کے اندرواقع ہے لیکن اس کی آبادی زیادہ تر نسلی آرمینیائی باشندوں پر مشتمل ہے ۔یہ علاقہ 1994 سے نسلی آرمینیائی کنٹرول میں تھا۔ آذربائیجان نے 2020 میں جنگ کے بعد اس کے کچھ حصوں پر دوبارہ ملکیت کا دعویٰ کیا تھا۔
پس منظر
ناگورنوکاراباخ پر 30 سال سے زائد عرصے سے جاری تنازعات کے بعد آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ کے جلد ختم ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
آرمینیائی علیحدگی پسندوں نے 1994 سے اس متنازعہ علاقے پر حکومت کی ہے اور وہ باکو کے حملے کے بعد بدھ کے روز فوری طور پر ہتھیار ڈالنے پر رضامند ہو گئے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علیحدگی پسند علاقے کو آذربائیجان میں دوبارہ ضم کرنے کے معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے لیے یہ اعلان ایک فیصلہ کن فتح ہے جنہوں نے اپنے ملک کے دوبارہ اتحاد کو ترجیح دی ہے۔
ناگورنو کاراباخ بنیادی طور پر پہاڑوں سے گھرا علاقہ ہے جسے 1921 میں سابق سوویت آمر سٹالن نے آرمینیا سے الگ کر کے آزربائیجان سے منسلک کر دیا تھا۔ یہ اس وقت سے مستقل کشیدگی کا مرکز رہا ہے۔
ناگورنو کاراباخ نے1991 میں آرتساک آزاد جمہوریہ کے طور پر اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ تاہم بین الاقوامی برادری نے اسے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ 1994 میں آرمینیا نے ناگورنو کارا باخ کی پہلی جنگ جیت لی جس کے نتیجے میں جمہوریہ ارتساک کی واقعتاً آزادی ہوئی لیکن اسے آذربائیجان نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
آذربائیجان نے 2020 میں دوسری ناگورنو کاراباخ جنگ شروع کی جس میں باکو کی افواج کو آرمینیائی فوج پر حاوی دیکھا گیا۔
اس شکست کے نتیجے میں آرمینیا ناگورنو کاراباخ اور اس کے آس پاس کے علاقے آذربائیجان کے حوالے کرنے پر مجبورہو گیا۔ جنگ بندی کے لیے روس کے 2000 امن فوجیوں کو تعینات کیا گیا تھا جو آرمینیائی باشندوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتے تھے۔ تاہم یہ اقدام بھی سرحد پر باقاعدہ مسلح جھڑپوں کو روکنے میں ناکام رہا۔
آذربائیجان نے ایک منقسم آرمینیا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے منصوبے کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔روسی امن دستوں کی موجودگی کے باوجود دسمبر 2022 میں آذربائیجان نے لاچین کوریڈور کی ناکہ بندی کر دی ۔ یہ ایک تنگ پہاڑی سڑک ہے جو آرمینیا کو ناگورنو کاراباخ سے ملاتی ہے۔تازہ حملے سے صرف ایک دن پہلے یعنی 18 ستمبر تک خوراک اور ادویات لے جانے والے ریڈ کراس ٹرکوں کو ہی ناگورنوکارا باخ تک رسائی حاصل کی تھی ۔
ترکی کی حمایت اور قفقاز میں ماسکو کا گھٹتا ہوا اثر و رسوخ
ناگورنو کاراباخ کی پہلی اور دوسری جنگوں میں آذربائیجان کو ترکی کی حمایت حاصل تھی۔ترکی کی وزارت دفاع کے ایک اہل کار نے کہا کہ ملک اپنے قریبی اتحادی آذربائیجان کی حمایت کے لیے فوجی تربیت اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ ’’تمام ذرائع‘‘ استعمال کر رہا ہے لیکن اس نے ناگورنو کاراباخ میں باکو کے فوجی آپریشن میں براہ راست کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ باکو کی کامیابی ماسکو کی کمزور ہوتی ہوئی علاقائی پوزیشن کا نتیجہ ہے۔ روس کو فروری 2022 میں یوکرین میں اپنی جارحیت شروع کرنے کے بعد سے قفقاز کہلائے جانے والے اس علاقے میں پولیس مین کے طور پر اپنے روایتی کردار کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ مزید یہ کہ روس آذربائیجان پر بہت زیادہ انحصار کر چکا ہے۔ یہ ملک ایران اور روس کے درمیان ایک راہداری کے طور پر کام کرتا ہےاور یوکرین میں جنگ کے لیے فوجی سامان کی منتقلی کی اجازت دیتا ہے اور ان ممالک میں سے ایک ہے جو روس کو مغربی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔
مغرب کا ردعمل
حالیہ برسوں میں آرمینیا کے لیے ماسکو کی حمایت میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ 2018 میں منتخب ہونے والے وزیر اعظم نکول پشینیان نے روس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور سلامتی کی ضمانتوں کے لیے مغرب کا رخ کیا ہے۔
اس تازہ ترین صورت حال پر ابھی مغربی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم بین الاقوامی نکتہ نظر ایک بار پھر آذربائیجان کے حق میں کام کر رہا ہے۔
یورپی یونین نے روسی سپلائی پر انحصار کم کرنے کے لیے جنوری میں باکو کے ساتھ قدرتی گیس کی درآمد کے ایک دور رس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔اس کے چند ماہ بعد یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے باکو کا دورہ کیا اور آذربائیجان سے گیس کی درآمد کو دوگنا کرنے کے لیے ایک نئے معاہدے کا اعلان کیا۔
آرمینائی باشندوں کی منتظر موت یا جلا وطنی
ناگورنو کاراباخ میں اس وقت شہری پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے پاس وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ آذربائیجان نے آرمینیا سے منسلک واحد لائف لائن کو بند کر دیا ہے۔ پھر ایک اور تشویش کا تعلق آرمینیائی علاقے کی سالمیت سے ہے، کیونکہ ناگورنو کاراباخ کا علاقہ قفقازخطے کے دو دشمنوں کے درمیان بفر زون کے طور پر اپنا مقام کھو سکتا ہے۔ ادھر خارجہ پالیسی کیلئے آذربائیجان کے صدارتی مشیر حکمت حاجیف نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ان کے ملک کا مقصد ناگورنوکاراباخ کے علیحدگی پسند علاقے میں رہنے والے آرمینیائی باشندوں کو ’’پرامن طریقے سے دوبارہ یکجا کرنا ‘‘ ہے اور یہ ’’آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل‘‘ کی حمایت کرتا ہے۔
اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس، اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں