رسائی کے لنکس

یوکرین سے اناج کی برآمد: ایردوان پوٹن کو معاہدے کی تجدید پر رضامند کرنے میں ناکام


 بحیرہ اسود کے سیاحتی مقام سوچی میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور ترک صدر رجب طیب ایردوان ملاقات کے بعد باہر آ رہے ہیں۔
بحیرہ اسود کے سیاحتی مقام سوچی میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور ترک صدر رجب طیب ایردوان ملاقات کے بعد باہر آ رہے ہیں۔

ترکیہ اور روس کے درمیان یوکرین سے غذائی اجزا برآمد کرنے کے بحیرۂ اسود اناج معاہدے کی بحالی پر بات چیت کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئی ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے اس معاہدے کی مدت میں مزید توسیع کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

یوکرین سے اناج کی برآمد کا معاہدہ ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کی کوششوں سے ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت یوکرین جنگ کے دوران جولائی 2022 میں طے پایا تھا کہ روس اناج سے لدے ایک ہزار سے زائد بحری جہازوں کو بحیرۂ اسود کی گزرگاہ کو استعمال کرنے میں مخلل نہیں ہوگا۔

اس معاہدے سے لگ بھگ 33 ملین میٹرک ٹن اناج لے جانے کی اجازت دی گئی تھی اور معاہدے کا مقصد یوکرین سے زراعی اجناس کو عالمی منڈیوں تک محفوظ طریقے سے پہنچانا تھا۔

رواں برس جولائی میں معاہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد ماسکو نے اس کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے باعث عالمی منڈی تک اناج کی ترسیل رک گئی ہے۔

یوکرین سے اناج کی برآمد رک جانے سے خوراک کے عالمی بحران کے مزید بگڑنے کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں۔

روس اور یوکرین کا شمار دنیا میں گندم، مکئی، سورج مکھی کا تیل اور دیگر اہم غذائی اجناس برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔

دنیا میں جاری خوراک کے عالمی بحران کی وجہ سے کھانے پینے کی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کے لیے خوراک کا انتظام کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ عالمی سطح پر خوراک کی کمی کو پورا کرنے والے اداروں کے بجٹ بھی اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

روس کے شہر سوچی میں ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا تھا کہ روس صرف اس صورت میں معاہدے کی طرف لوٹے گا جب مغرب اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے گا جن میں ماسکو پر عائد پابندیاں ہٹانے کا وعدہ بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ روس سے غذائی اجناس اور کھاد کی برآمد پر پابندی بدستور برقرار ہے۔ یہ پابندی روس کی برآمدات کو عالمی منڈی تک پہنچنے سے روکنے کا سبب ہے۔

واضح رہے کہ یوکرین کے خلاف جارحیت کے سبب روس پر مغربی ملکوں کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں لیکن ان پابندیوں میں خوراک اور کھاد کی برآمد شامل نہیں ہے۔

مغربی پابندیوں سے روس کے بینکوں کا عالمی ادائیگی کے نظام سے منقطع ہونے اور روس کے بحری جہازوں کی انشورنس میں مشکلات کے نتیجے میں ماسکو کی اناج کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔

یوکرین سے اناج کی ترسیل میں رکاوٹ، دنیا کو کیسے متاثر کرے گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:59 0:00

معاہدے کی بحالی کے طرف دار مغربی ممالک اس کی افادیت بیان کرنے کے لیے ترکیہ کے شہر استنبول میں قائم اقوامِ متحدہ سے منسلک ’بلیک سی گرین انیشیٹو جوائنٹ کوآرڈینیشن سینٹر ‘ کے اعداد و شمار استعمال کرتے ہیں۔ روسی حکام بھی یہیں سے تفصیلات حاصل کرتے ہیں۔

روسی حکام مغربی ممالک کے ان دعوؤں کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ صدر پوٹن خوراک کو ہتھیار کے طور استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے بقول اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ معاہدے کے تحت اناج کی برآمدات کا 80 فی صد حصہ دنیا کے امیر ممالک کو گیا ہے۔

دوسری طرف مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ یوکرین سے برآمد ہونے والی اناج کا 57 فی صد حصہ ترقی پذیر ممالک کو جاتا رہا ہے۔

اس تضاد کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اقوامِ متحدہ چین کو ترقی پذیر ملک اور ایک اعلیٰ متوسط آمدنی والے ملک، دونوں کے طور پر درجہ بندی کرتا ہے۔

اس معاہدے کے تحت چین کو اناج کی ترسیل کا 24 فی صد حصہ جاتا ہے۔

امریکہ: یوکرینی فوجیوں کے لیے موزے اکٹھے کرنے کا مشن
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:28 0:00

روس کی جانب سے معاہدے کی تجدید نہ ہونے کے اثرات کے حوالے سے واشنگٹن ڈی سی میں قائم ’انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ نے تجزیے میں متنبہ کیا ہے کہ معاہدے کے تعطل سے اناج کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا ۔اس سے عالمی سطح پر صارفین کو اناج مزید مہنگے داموں ملے گا۔

تجزیے میں واضح کیا گیا ہے کہ اناج کی نقل و حمل کے زیادہ اخراجات سے کسانوں کی آمدن بھی کم ہو جائے گی جس سے ممکنہ طور پروہ مستقبل میں اناج کی پیداوار کم کر دیں گے۔

تحقیقی ادارے کے مطابق کم پیداوار عالمی منڈیوں کے لیے بھی خطرات کا باعث ہو سکتی ہے۔

تجزیے میں کہا گیا ہے کہ رواں برس عالمی سطح پر اناج کے ذخائر کم سطح پر ہیں۔ اس سال قیمتیں غیر مستحکم رہیں گی جب کہ قیمتوں کا تعلق ممکنہ پیداوار کی کمی سے بھی ہوگا۔

XS
SM
MD
LG