پورے ملک کی نگاہیں جمعے کے روز سپریم کورٹ پر لگی ہوئی تھیں۔ چیف جسٹس کا کمرہ وکلا سے اور عدالت کا لان صحافیوں اور کیمرہ مینوں سے بھرا ہوا تھا۔ انتہائی حساس ایودھیا معاملے پر نئے بینچ کی تشکیل کے ساتھ سماعت کا آغاز ہونا تھا۔
لیکن چیف جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس ایس کے کول نے محض دس سیکنڈ میں معاملہ ختم کر دیا۔ چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود وکلا سے پوچھا ”یہ رام جنم بھومی معاملہ ہے؟ جی ہاں۔ اب آرڈر سنیئے۔ دس جنوری کو ایک مناسب بینچ کے ذریعے نیا آرڈر پاس کیا جائے گا۔ براہ کرم اب دس جنوری کو آئیے“۔
اس کے ساتھ ہی سارا جوش ٹھنڈا ہو گیا۔ مخالف فریقوں کی جانب سے پیش ہونے والے دو سینیر وکلا ہریش سالوے اور راجیو دھون کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ عدالت نے اس عرضی کو خارج بھی کر دیا جس میں اس معاملے پر فوری اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی گزارش کی گئی تھی۔
تین ججوں کے بینچ نے 29 اکتوبر کو یہ معاملہ 4 جنوری تک کے لیے التوا میں ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ اس روز ایک نیا بینچ بنے گا جو آگے کی سماعت کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ معاملہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ ان کے پاس اور بھی ضروری مقدمات ہیں۔
سپریم کورٹ کو 30 ستمبر 2010 کے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرنا ہے جس میں ایودھیا کی متنازعہ 2.77 ایکڑ اراضی کو تقسیم کر کے تین فریقوں نرموہی اکھاڑہ، رام للا براجمان اور سنی سینٹرل وقف بورڈ میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
مسلم اور ہندو دونوں فریقوں نے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ اس سے قبل جب یہ معاملہ عدالت کے سامنے آیا تو مسلم فریقوں کی جانب سے درخواست کی گئی کہ پہلے 1994 کے اسماعیل فاروقی کیس میں سنائے گئے اس فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کی جائے جس میں کہا گیا ہے کہ مسجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے اور نماز کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
عدالت نے اس پر سماعت کرتے ہوئے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا اور کہا تھا کہ اب 29 اکتوبر کو ایودھیا کی متنازعہ اراضی کے حق ملکیت کے معاملے پر سماعت ہو گی۔
لیکن جب 29 اکتوبر کو بھی اس پر سماعت شروع نہیں ہوئی تو وشو ہندو پریشد، آر ایس ایس، بی جے پی، شیو سینا اور دوسری ہندو تنظیموں کی جانب سے زبردست واویلا کیا گیا اور سوال اٹھایا گیا کہ اگر ایودھیا کا معاملہ ترجیح میں نہیں ہے تو پھر کون سا معاملہ ترجیح میں شامل ہو گا۔
ان تنظیموں کی جانب سے ہندووں کے ایک طبقے کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی اور پہلے اجودھیا اور ناگپور سمیت کئی مقامات پر اور اس کے بعد دہلی کے رام لیلا میدان میں رام مندر کے حق میں ریلیاں منعقد کی گئیں۔
اس معاملے میں ہندووں کے ایک طبقے کے مذہبی جذبات کو ابھارنے میں میڈیا بھی بڑا اہم رول ادا کر رہا ہے۔ تقریباً روزانہ ہی کسی نہ کسی نیشنل چینل پر اس موضوع پر بحث کرائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ رام کا مندر ایودھیا میں نہیں بنے گا تو کہاں بنے گا۔
ہندو تنظیموں اور بی جے پی کے بعض ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے بھی حکومت سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر عدالت اپنا فیصلہ نہیں سناتی تو وہ آرڈیننس لا کر رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر مودی حکومت میں رام مندر نہیں بنا تو پھر کس کی حکومت میں بنے گا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان تنظیموں کی کوشش جہاں حکومت اور عدالت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، وہیں اس کی آڑ میں ملک میں ایسا ماحول بھی بنایا جا رہا ہے جو 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کے لیے سازگار ہو۔ سادھوؤں کی جانب سے حکومت کو یہ دھمکی دی جا رہی ہے کہ اگر اس نے الیکشن سے قبل مندر نہیں بنوایا تو اسے دوبارہ برسراقتدار آنے نہیں دیا جائے گا۔
یکم جنوری کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک نیوز ایجنسی اے این آئی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں اس بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ پہلے وہاں سے فیصلہ ہو جائے اس کے بعد آئینی دائرے میں جو بھی ہو گا وہ کیا جائے گا۔ ان کا اشارہ اس جانب تھا کہ اگر آرڈیننس لانے کی ضرورت پڑی تو وہ بھی کیا جائے گا۔
ان کے اس بیان کے بعد آر ایس ایس کے ایک سینیر عہدے دار کا کہنا ہے کہ ہندو فرقہ قیامت تک عدالتی فیصلے کا انتظار نہیں کر سکتا۔
ہندو فریق یہ سوچ رہا ہے کہ عدالت مندر کے حق میں ہی فیصلہ سنائے گی۔ اور اگر اس نے اس کے خلاف فیصلہ سنایا تو ان کی دھمکی ہے کہ اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا اور جہاں عارضی مندر ہے وہاں ایک شاندار مندر تعمیر کیا جائے گا۔
وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پورا ملک متنازعہ مقام پر رام مندر کی تعمیر کے حق میں ہے۔ جبکہ ہندووں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس کے خلاف ہے اور مسلمان تو خلاف ہیں ہی۔
ہندووں کا دعویٰ ہے کہ جس مقام پر بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی وہاں رام پیدا ہوئے تھے۔ بلکہ ان کا یہاں تک کہنا ہے کہ منبر کی جگہ پر پیدا ہوئے تھے۔ بابر کے سپہ سالار میر باقی نے مندر توڑ کر مسجد بنائی تھی۔
لیکن مسلمان اس کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس جگہ پر کوئی مندر تھا۔
1949 کی ایک رات میں چپکے سے مسجد میں رام کی مورتی رکھ دی گئی تھی اور صبح کو یہ شور مچایا گیا تھا کہ رام جی پرکٹ ہوئے ہیں۔
رام مندر چند دہائیوں سے ایک سیاسی ایشو بن گیا ہے۔ 80 کی دہائی میں وشو ہندو پریشد نے رام مندر کے حق میں مہم چلائی تھی جس میں بی جے پی بھی شریک ہو گئی۔ اس کے لیے پورے ملک میں ایک جذباتی ماحول بنایا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں 6 دسمبر 1992 کو بڑی تعداد میں ایک انتہاپسند ہندو ہجوم نے بابری مسجد منہدم کر دی تھی۔ اس کے بعد پورے ملک میں فسادات ہوئے تھے اور بڑی تعداد میں لوگ بالخصوص مسلمان ہلاک ہوئے تھے۔
اس وقت اترپردیش میں بی جے پی کی اور مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی۔
اسی دوران متنازعہ مقام پر محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے یہ دیکھنے کے لیے کھدائی کی گئی کہ کیا وہاں پہلے کوئی مندر تھا۔ اس بارے میں محکمہ کو جو آثار ملے ان کے بارے میں تنازعہ ہے۔
ہندو فریقوں کا کہنا ہے کہ مندر کے آثار ملے تھے۔ لیکن اس کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی دستیاب ہوا تھا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہاں پہلے کوئی مندر تھا اور جسے توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی۔
مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے حق میں بہت سی دستاویزات ہیں۔
مسلمان جہاں یہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت جو بھی فیصلہ سنائے گی ہم تسلیم کریں گے۔ وہیں ہندو فریقوں کا کہنا ہے کہ اگر مندر کے حق میں فیصلہ آیا تو مانیں گے ورنہ نہیں۔ ان کی دھمکی ہے کہ ہم وہاں ہر حال میں مندر بنائیں گے۔
بابری مسجد انہدام کے بعد ایودھیا میں ایک ورکشاپ قائم کی گئی جہاں چوبیس گھنٹے مندر کی تعمیر کے لیے پتھروں کی تراش خراش کا کام جاری ہے۔ اس کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ دو منزلوں کی تعمیر کے پتھر تیار ہیں۔ جس دن فیصلہ آیا مندر تعمیر کر دیا جائے گا۔