بحرین میں کئی مہینوں تک جاری رہنے والے حکومت مخالف مظاہروں کےبعد سنی حکمرانوں نے حزب اختلاف کے راہنماؤں کےساتھ ہفتے کے روز مفاہمتی مذاکرات شروع کردیے ۔
یہ مذاکرات بحرین کی شیعہ اکثریت کی جانب سے اس سال کے شروع میں جمہوریت کے حق میں بڑے پیمانے پر مظاہروں اور حکومت کی پکڑ دھکڑ کے بعد مفاہمت کو آگے بڑھانے کے لیے کیے جارہےہیں۔
ہفتے کے روز کاپہلااجلاس زیادہ تر رسمی نوعیت کاتھا اور حزب اختلاف کے کئی ارکان نے اس بارے میں اپنے ان خدشات کا اظہار کیا کہ آیا کہ کنگ عبداللہ کی جانب سے بلائے جانے والے قومی مذاکرات سے کوئی نتیجہ نکل بھی پائے گا یا نہیں۔
خلیجی ریاست کی سب سے بڑی شیعہ اکثریت کی پارٹی وفاق نے آخری لمحات قومی مذاکرات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ پارٹی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے حزب اختلاف کی اہم شخصیات کو مسلسل جیل میں رکھنے کی صورت میں قومی ڈائیلاگ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتے۔
پارلیمنٹ کے 40 رکنی ایوان زیریں میں وفاق پارٹی کے تمام 18 قانون ساز وں نے مارچ میں حکومت کی جانب سے پکڑدھکڑ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی نشستوں سے استعفی ٰ دے دیا تھا۔ حکومت نے یہ پکڑ دھکڑ حکومت مخالف تحریک کو کچلنے کے لیے کی تھی جس میں شیعہ اکثریت پیش پیش تھی۔
بحرین کی حکومت کہہ چکی ہے کہ قومی مذاکرات کے دوران سیاست ، معیشت اور انسانی حقوق کےمعاملات کو بھی زیر بحث لایا جائے گا۔
اس ہفتے کے شروع میں بحرین کے شاہ نے حالیہ مظاہروں کے دوران انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی چھان بین کے لیے ایک آزاد کمشن قائم کرنے کا اعلان کیاتھا۔
شاہ حامد بن عیسیٰ الخلیفہ نے ٹیلی ویژن پر قوم سے اپنے خطاب میں کہاتھا کہ ان کی حکومت انسانی حقوق کااحترام کرتی ہے اور وہ اصلاحات نافذ کرناچاہتی ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہناتھا کہ حزب اختلاف کے مظاہروں سے ملک میں افراتفری پیدا ہوئی تھی جس پر قابو پانے کےلیے حکومت کو گرفتاریاں کرنی پڑیں اور مقدمے چلانے پڑے۔