بلوچستان میں مطالعے کے فروغ کی مہم

بلوچستان میں کُتب بینی کا شوق تقریباً ختم ہو گیا ہے۔  صوبے کے مر کزی شہر کوئٹہ میں کتابیں فروخت کرنے والی تقریباً تمام دُکانیں اب بند ہو چکی ہیں اور ان کی جگہ شہر میں درجنوں انٹر نیٹ کیفے لے چکے ہیں۔

ستارکاکڑ

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے لوگوں میں کُتب بینی کے رُحجان کو فروغ دینے کے لئے بلوچستان پیس فورم کے زیر اہتمام ایک تحریک شروع کی گئی ہے۔ تنظیم کے سر براہ نوابزادہ لشکر ی رئیسانی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کو درپیش بدامنی کی صورت حال، فرقہ وراریت ، قتل وغارت گری ، بدعنوانی ، اقر با پروری اور دیگر سنگین مسائل سے نجات صرف کتاب سے دوستي کر کے ہی دلائی جا سکتی ہے ۔

وائس اف امر یکہ سے گفتگو کے دوران اُن کا کہنا تھا کہ ہماری کو شش ہے کہ بلوچستان کی دس ہزار سالہ پرانی تاریخ کے دوران پیش آنے والے بحرانوں اور اُن سے نمٹنے کی حکمت عملی سے متعلق کتابوں میں موجود شواہد کی روشنی میں صوبے کو موجود بحراني صورت حال سے نکالنے کا حل تلاش کرنے کے لئے لوگوں کو راغب کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کتابوں کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ پتا چلے کہ اس خطے اور دینا میں کیا ہونے والا ہے اور آنے والے دنوں میں ہم نے اس صوبے کو کس طرح بحرانوں سے بچانا ہے۔ جو صورت حال ہمارے ہمسایہ ممالک شمال مغر ب میں افغانستان اور جنوب مغر ب میں عراق میں ہے، اس کو اگر لوگ پہلے سمجھ لیتے تو آج افراتفری نہ ہوتی، آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے سماج کو بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

بلوچستان میں کُتب بینی کا شوق تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ صوبے کے مر کزی شہر کوئٹہ میں انگریزوں کے دور سے سیاسی، سماجی، قبائلی روايات اور دیگر موضوعات پر مبنی کتابیں فروخت کرنے والی تقریباً تمام دُکانیں اب بند ہو چکی ہیں اور ان کی جگہ شہر میں درجنوں انٹر نیٹ کیفے لے چکے ہیں جہاں زیادہ تر نوجوان اپنا فارغ وقت گزار تے اور عارضی و مختصر معلومات حاصل کر نے کی کو شش کر رہے ہوتے ہیں۔

نوابزادہ لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ تنظیم نے تقریبا ایک سال کے دورا ن بیس ہزار کتابیں لوگوں میں تقسیم اور دس ہزار سے زائد جمع کی ہیں۔ کوئی بھی شخص اس تنظیم کو کو ئی بھی کتاب عطیہ کر سکتا ہے اور مطالعے کا شوق رکھنے والا کو ئی بھی شخص اس کا رُکن بن سکتا ہے ۔ تاہم تنظیم کے لئے کسی سے چندہ جمع نہیں کیا جاتا ۔