اقتصادی ماہرین کے بقول، بلوچستان میں بدامنی کے واقعات کے باعث گزشتہ دس سالوں کے دوان کسی بھی شعبے میں کوئی قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں ہوئی، جس سے ایک جانب بیروزگاری تو دوسری جانب غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
وفاقی وزارت منصوبہ بندی و ترقیات کے ایک سر وے کے مطابق، بلوچستان میں اس وقت غربت کی شرح 71 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے، جس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔
بلوچستان کے معاشی و اقتصادی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو صوبے میں غربت کی شرح میں کمی کے لئے فوری اقدامات اُٹھانے چاہیئں، بالخصوص 'سی پیک' کے منصوبوں اور گوادر کی بندرگاہ سے فائدہ اُٹھانے کے لئے جوانوں کو تیار کرنا چاہیئے۔
بلوچستان کے معاشی اور اقتصادی امور کے ماہر محفوظ علی خان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بدامنی کی ایک وجہ غربت بھی ہے اس مسئلے سے اب جنگی بنیادوں پر نمٹنا چاہیئے۔
اُن کے بقول، ''غر بت کو ختم کرنے کےلئے ہمارے پاس منصوبے ہونے چاہیئے۔ یہاں صوبے میں سی پیک ایک مکمل ڈائریکٹوریٹ ہونا چاہیئے جس میں سی پیک کے حوالے سے جو پراجیکٹس آرہے ہمیں اُن کو الگ الگ کرنا چاہیئے کہ اس میں براہ راست کتنی سرمایہ کاری ہونی ہے۔ پی پی پی کے ذریعے کتنی ہونی ہے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں کتنا ہے۔ ہمارے اپنے مشترکہ منصوبے کتنے ہیں اور اس میں مستقبل میں کس قسم کے منصوبے نکلیں گے۔ ہم بے شمار معدنیات کے مالک ہیں ہم سیندک کو بہتر طور پر استعمال کرسکتے ہیں''۔
محفوظ علی خان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں غر بت کی لکیر سے نیچے قرار دئیے جانے والے دس اضلاع میں سے نو بلوچستان میں ہیں ان میں ایک ضلع ڈیرہ بگٹی بھی ہے جہاں سے 1954 سے قدرتی گیس نکالی جاررہی ہے لیکن اس کی آمدنی کا ایک فیصد بھی وہاں خر چ نہیں کیا گیا اس صوبے کو ترقی کے حوالے سے دوسرے صوبوں کے برابر لانے کےلئے سی پیک ایک بہتر ین موقع ہے، لیکن بدقسمتی سے اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں بلوچستان کے لوگوں کو کو ٹے کے مطابق ملازمتیں نہیں ملیں یہ بھی غُربت کا ایک فیکٹر ہے انہوںنے کہا سی پیک کے تین مراحل ہیں پہلا مرحلہ دسمبر 2018 میں مکمل ہوگا جس میں بلوچستان کے صرف دو منصوبے رکھے گئے ہیں ایک پچاس بستروں کے ایک اسپتال کا قیام اور دوسرا کو ئٹہ میں تر بیتی مر کز کاقیام ہے ؒ ، اس کے بعد دو مر حلوں کےلئے ابھی سے ہمارے صوبے کے جوانوں کو اس منصوبے کے تمام پراجیکٹس کےلئے تیار کر نا چاہیے، اور اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ منصوبے کے دوسرے مرحلے میں بلوچستان کے حصے کی آسامیاں کتنی ہوں گی اور اس کےلئے نوجوانوں کو کس طرح سے تیار کرنا چاہیے ۔
انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں ایسے اضلاع ہیں جو مو یشیوں کی پیداوار میں اضافے کےلئے انتہائی موزوں ہیں ضلع موسیٰ خان اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ مویشی پیدا ہوتے ہیں اگر صوبائی حکومت بھیڑ بکر یوں کی پیداوار میں اضافے کےلئے اس صوبے پر توجہ دے تو اس سے بھی ہزاروں نوجوانوں کو روزگار ملیگا ۔اسی طرح صوبے کے بعض اضلاع زراعت کے حوالے سے نہایت موزوں ہیں اس شعبے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
قدرتی وسائل سے مالا مال اس جنوب مغر بی صوبہ بلوچستان میں اس وقت چالیس سے زائد قدرتی معدنیات کو بروئے کار لایا جارہا ہے جن میں کوئلہ سے لے کر سو نا ، سنگ مر مر، زنگ تانبہ اور دیگر بیش بہا قیمتی معدنیات شامل ہیں لیکن ان معدنیا ت سے فائدہ اُٹھانے کےلئے بلوچستان میں تر بیت یافتہ لیبر اور نہ ہی پانی وافر مقدار میں دستیاب ہے ۔
محفوظ علی خان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے پاس 750 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہے صوبائی حکومت اس پٹی کے ساتھ مختلف مقامات پر مچھلی کی پیداوار اور دیگر سیاحتی مقامات پر سر مایہ کاری کر کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتا ہے اسی طرح صوبے کے مختلف علاقوں سے نکالی جانے والی معدنیات سے بھر پور استفادہ کرنے کےلئے اس شعبے میں سر مایہ کاری کےلئے منصوبہ بندی کر نی چاہیے جہاں سے لوگوں کی بڑی تعداد کو روزگار ملے گا۔