پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے زائد عر صے سے بدامنی کی لپیٹ میں رہا ہے جس کی ذمہ داری سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ افسران اور صوبائی حکام کالعدم بلوچ عسکری اور مذہبی شدت پسند تنظیموں پر عائد کرتے ہیں۔
صوبائی حکومت کے محکمہ پولیس کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق بلوچستان میں رواں سال کے دوران 9 خودکش بم حملے ہوئے جن میں سے چار پولیس، ایک فوج اور ایک فر نٹیر کور کے اہلکاروں پر کیا گیا۔ ان حملوں میں سیکورٹی اداروں کے 47 اہلکار اور 62 شہری ہلاک ہوئے جبکہ پولیس کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے درجن سے زائد واقعات میں تین اعلیٰ افسروں سمیت 49 اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنر ل پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کا کہنا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران اور دیگر اہلکاروں پر دہشت گردوں کے حملوں کے باوجود دہشتگردی کو ختم کر نے کے عزم میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی اور اب بھی کو ئی بھی واقعہ ہونے کے بعد پولیس کے افسران ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں۔
ایک پریس کانفرنس میں تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ "دہشت گردوں کی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ وہ پولیس اور ایف سی کو ٹارگٹ اس لئے کرتے ہیں کہ اُن کے حوصلے کو کمزور کر کے اپنے راستے کی رُکاوٹ کو ہٹایا جائے اور براہ راست عام لوگوں کو نشانہ بنایا جائے اس کے لئے اب انہوں نے افسروں کو ہدف بنانا شروع کیا، اس سے بھی وہ مایوس ہیں اور ہوں گے، دہشت گردوں کے خلاف ہمارے عزم میں کو ئی کمزوری نہیں آئے گی۔"
بلوچستان میں جہاں ایک جانب کالعدم بلوچ عسکر ی تنظیمیں کارروائیاں کر رہی ہیں وہاں کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیموں کے ارکان سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں اور شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔
تجزیہ نگار امان اللہ شادیزئی کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت امن وامان کو بہتر بنانے پر اربوں روپے خر چ کر رہی ہے لیکن اتنی خطیر رقم کا نتیجہ توقعات کے مطابق نہیں آرہا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "لوگوں کی خواہش ہے کہ دو سالوں میں 70 ارب روپے صوبائی بجٹ کے خرچ ہوچکے ہیں تو کالعدم تنظیموں کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا جو ابھی تک نہیں ہوا، حکومت خود کہتی رہی ہے کہ ہم نے کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو گرفتار کیا ہے لیکن اُن کی گرفتاری کا نتیجہ کوئی نہیں نکلا، کراچی اور دیگر شہروں میں ان لوگوں کو پھانسیاں نہیں ہوئیں۔۔۔ اُن کو سزا نہیں دی جاسکی تو وہ نیٹ ورک ابھی تک موجود ہے اور ایک رد عمل چلتا رہتا ہے۔"
حکومت بلوچستان کے ذرائع کے مطابق سال 2017ء میں صوبہ بھر میں دیسی ساختہ بموں، بارودی سُرنگوں، فرقہ ورانہ دہشت گردی، دستی بموں اور تشدد کے دیگر 300 سے زائد واقعات میں شیعہ ہزارہ برادری کے 11 افراد سمیت 370 ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔