بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں پر پابندی کا اعلان

وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ان کالعدم بلوچ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بغیر کسی الزام کے ایک سال تک حراست میں رکھا جا سکے گا۔ انھوں نے کہا کہ تشدد کے واقعات میں ملوث ان علیحدگی پسند گروہوں کے ارکان افغانستان سے تربیت حاصل کرنے کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے الزام لگایا کہ براہمداغ بگٹی اب بھی کابل میں موجود ہے اور بتایا کہ نہ صرف افغان حکام بلکہ بھارتی حکام سے بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت کے الزامات کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔

بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے ایک مفصل حکمت کا اعلان کرتے ہوئے صوبے میں ایسی عسکری تنظیموں پر پابندی لگا دی ہے جو مبینہ طور پر بیرونی معاونت سے علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینے کے لیے پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

بدھ کو کوئٹہ میں پولیس اوراعلیٰ صوبائی حکام کے ایک اجلاس میں شرکت کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے اثاثے منجمد کرنے کے احکاما ت جاری کردیے گئے ہیں۔

ان میں مفرور بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی کی بلوچ رپبلکن پارٹی( بی آر پی) اور ذیلی تنظیم بلوچ رپبلکن آرمی (بی آر اے) کے علاوہ بلوچ لیبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچستان یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ (بی ایل یو ایف) اور بلوچ مسلح دفاع تنظیم (بی ایم ڈی ٹی) شامل ہیں ۔ ان عسکری تنظیموں پر الزام ہے کہ وہ بلوچستان میں دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور جلوسوں پر حملوں میں ملوث ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے فوری طور پر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ پولیس کے اختیارات فرنٹیر کور کو منتقل کر کے کسی بھی ضلع میں تعینات کر سکیں گے۔انھوں نے کہا کہ صوبے میں کوئی باقاعدہ آپریشن نہیں شروع کیا جارہا بلکہ مخصوص اہداف کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

رحمن ملک نے کہا کہ ان کالعدم بلوچ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بغیر کسی الزام کے ایک سال تک حراست میں رکھا جا سکے گا۔ انھوں نے کہا کہ تشدد کے واقعات میں ملوث ان علیحدگی پسند گروہوں کے ارکان افغانستان سے تربیت حاصل کرنے کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے الزام لگایا کہ براہمداغ بگٹی اب بھی کابل میں موجود ہے اور بتایا کہ نہ صرف افغان حکام بلکہ بھارتی حکام سے بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت کے الزامات کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔

بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیمو ں کے خلاف ان اقدامات کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب صوبے میں سکیورٹی فورسز، سرکاری تنصیبات اور آبادکاروں پر ہلاکت خیز حملوں میں حالیہ دنوں میں شدت آئی ہے ۔ تشدد کے ان واقعات کے بعد ملک کے دوسرے صوبے سے یہاں آکر آباد ہونے والے خاندانوں کی بڑی تعداد بلوچستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی ہے ۔ ان میں تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں۔

دریں اثنا مقامی حکام نے بتایا ہے کہ بدھ کو صوبے کے دور دراز ضلع حب میں ایک بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں کم ازکم تین افراد ہلاک ہو گئے۔