بلوچستان: خواتین کو مفت قانونی معاونت کی فراہمی کا مطالبہ

صوبائی حکومت کے ترجمان انور کاکڑ کا کہنا ہے کہ خواتین وکلاء کی جانب سے حکومت سے مدد کی اگر کوئی اپیل کی گئی تو اس پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا۔

بلوچستان کی خواتین وکلاء نے حکو مت سے اپیل کی ہے کہ صوبے کی خواتین کو اپنے قانونی حقوق کے تحفظ اور اُنھیں سستا انصاف دلانے کے لیے اقدامات کئے جائیں۔

کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر فرزانہ خلجی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قبائلی معاشرہ اور کم شرح خواندگی کے باعث بلوچستان کی خواتین کی اکثریت کو اپنے انسانی اور قانونی حقوق کا زیادہ علم نہیں ہے۔

خواتین کو مفت قانونی مشاورت اور وکلاء کی بلامعاوضہ خدمات فراہم کرنے کے لیے ایک سال پہلے عورت فاﺅنڈیشن کے تعاون سے ایک سالہ منصوبے پر کام شروع کیا گیا جس کے تحت کئی نادار اور غریب خواتین کی عدالتوں میں مختلف مقدمات میں مدد کی گئی۔

’’اس سینٹر کو بنانے کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ خواتین کو قانونی مدد فراہم کی جائے اس سے پہلے خواتین کے جتنے حقوق تھے وہ پامال ہوتے تھے اُن کو پتہ ہی نہیں تھا کہ پراپرٹی (جائیداد) پر اُن کا بھی کوئی حق ہے ۔۔ اگر اُن پر گھر میں تشدد ہو رہا ہے تو اُس پر بھی وہ کیس کر سکتی ہیں یا اگر شوہر اُس کا بچوں کا خیال نہیں رکھ رہا، تو بھی خواتین رابطہ کر سکتی ہیں ایک سال کے دوران ہمارے سینٹر میں 100 خواتین رجسٹرڈ ہوئیں جن کو مفت قانونی مشاورت فراہم کی گئی ہے،،

عورت فاؤنڈیشن کے فنڈ سے خواتین کو مفت قانونی مشاورت فراہم کرنے کا یہ منصوبہ فنڈ ختم ہونے پر اب بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے حوالے کر دیا گیا ہے اور ایسوسی ایشن کے صدر عبدالغنی خلجی کا کہنا ہے کہ خواتین کو مفت قانونی مشاورت فراہم کرنے کے سلسلے کو جاری رکھے گی۔

صوبائی حکومت کے ترجمان انور کاکڑ کا کہنا ہے کہ خواتین وکلاء کی جانب سے حکومت سے مدد کی اگر کوئی اپیل کی گئی تو اس پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا۔

عورت فاﺅنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے صوبہ بلوچستان میں گزشتہ 7 سالوں کے دوران کاروکاری، غیرت اور تشدد کے دیگر واقعات میں 780 خواتین کو ہلاک کیا گیا۔