بلوچستان کے مشرقی اضلاع نصیر آباد، کچھی وسنی شو ران کو دریائے سندھ سے پانی کی فراہمی کے لئے کچھی کینال منصوبے کے پہلے مرحلے کا کام مکمل ہو گیا ہے اور نہر میں پانی چھوڑ دیا گیا ۔
پنجاب کے علاقے تونسہ بیراج پر واقع پراجیکٹ کے ہیڈ ریگولیٹر جمعرات کو 363 کلومیٹر طویل مین کینال میں پانی بھرنے کا مرحلہ شروع کیا گیا۔
مین کینال میں پانی کی بھرائی مکمل ہونے کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی عید کے بعد ستمبر کے دوسرے ہفتے میں کچھی کینال منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کریں گے۔
واپڈا حکام کے مطابق یہ منصوبہ پہلے مرحلے کی تکمیل سے بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں زراعت کے لئے پانی ہو گا اور تقریباً 72 ہزار ایکڑ اراضی زیر کاشت آئے گی، جس سے علاقے کے لوگوں کے لئے معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
پراجیکٹ پر تعمیراتی کام مکمل ہونے پر چیئر مین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین (ریٹائرڈ) نے ہیڈ ریگولیٹر پر نصب بٹن دبا کر مین کینال میں پانی کی بھرائی کا آغاز کیا۔
کچھی کینال منصوبہ 2002 میں شروع کیا گیا تھا، لیکن لاگت میں اضا فہ کی وجہ سے منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔
کچھی کینال منصوبے کا پہلا مرحلہ 80 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔ کل 363 کلومیٹر طویل مین کینال میں سے 351 کلو میٹر نہر پختہ ہے۔ یہ نہر صوبہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں واقع تونسہ بیراج سے نکلتی اور صوبہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں ختم ہوتی ہے۔
ضلع ڈیرہ بگٹی قدرتی گیس کی پیداوار میں پورے ملک میں سر فہرست ہے اس ضلعے میں قدرتی گیس کے بڑے ذخائر کے باوجود لوگ انتہائی کسمپر سی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھی کینال منصوبہ بلوچستان میں واٹر انفراسٹرکچر اور زرعی شعبہ کی ترقی کے لئے کلیدی اہمیت رکھتا ۔
سنی شوران کے ایک زمیندار ارباب قادر بخش نے وفاقی حکومت اور واپڈا سے مطالبہ کیا ہے کہ کچھی کینال کے دوسرے مرحلے پر بھی جلد کام کا آغاز کیا جائے تاکہ نصیر آباد، سنی شوران کچھی کے لوگوں کو بھی زراعت کے لئے پانی مل سکے۔
بلوچستان میں چند سال پہلے دریائے سندھ سے ایک نہر پٹ فیڈر کے نام سے بنائی گئی تھی جس سے ضلع جعفرآباد ، اور قریبی علاقوں کو زرعی مقاصد کے لئے دریا کا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
پٹ فیڈر کی تعمیر سے علاقے میں غر بت کی کمی کے ساتھ لوگوں کے لئے روزگار کے بھی بے شمار مواقع پیدا ہوئے ہیں۔