بلوچستان تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع کلو میٹر رقبے کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس وقت اندازاً یہاں ایک کروڑ افراد بستے ہیں۔کوئٹہ صوبے کا صدر مقام ہے ۔صوبے کو قدرتی وسائل کا عطیہ حاصل ہے خاص کر قدرتی گیس یہاں کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ سوئی کے مقام سے نکلنے کے باعث ہی اسے سوئی گیس کا نام دیا گیا ہے۔
قوموں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہاں کئی قومیں آباد ہیں تاہم بلوچ قوم اس صوبے کی اصل وارث ہونے کی دعویدار ہے۔ بلوچوں کا کہنا ہے کہ چونکہ پورے ملک کو بلوچستان سے ہی قدرتی وسائل اور خاص کر سوئی گیس سپلائی ہوتی ہے لہذا ان وسائل کے بدلے زیادہ سے زیادہ رائلٹی ادا کی جائے اور صوبے کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے لہذا وفاقی حکومت اس کے حل پر سب سے زیادہ توجہ دے۔
بلوچوں کو وفاقی حکومتوں سے یہ شکایت رہی ہے کہ حکومتیں بلوچستان کے وسائل پر زیادہ اور مسائل پر کم نظر رکھتی ہیں۔ یعنی وہ وسائل سے بھرپور فائدہ تو اٹھاتی ہے مگر انہیں یہاں کے مسائل کے حل سے خاطر خواہ دلچسپی نہیں۔
دراصل یہی نقطہ نظر بلوچ قوم کی سوچوں کا رخ پھیرگیا ہے۔ بلوچوں کے دلوں میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ ان کے حقوق پرغیر مقامی قومیں' ڈاکہ' ڈال رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بلوچی محض عددی برتری کی بنیاد پر غیر مقامی قوموں کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔
سابقہ حکومتوں کی کچھ پالیسیاں بھی بلوچ قوم کی ناراضگی کا باعث بنیں ۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بلوچ سردار اکبر بگٹی کا قتل ان ناراضگیوں میں جلتی پر تیل کا کام کرگیا ۔ اس واقعے کے بعد بلوچستان میں وفاق کے خلاف نفرت جڑ پکڑ گئی اور جو معاملہ سالوں سے سلگ رہا تھا اس میں حد درجہ تیزی آگئی۔ کہا یہ جارہا ہے کہ وہاں آگ اور خون کا کھیل شروع ہوگیا ہے۔
بلوچستان میں جاری آگ اور خون کے اس کھیل میں تیزی کا اندازہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے گزشتہ ہفتے دیے جانے والے اس بیان سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے 'شورش زدہ صوبے'، 'بلوچ علیحدگی پسند' ، 'ایک علیحدہ وطن 'اور 'پاکستان سے کوئی دلچسپی نہ رکھنا 'جیسے خطرناک الفاظ استعمال کئے ہیں۔ عموماً یہ الفاظ 'باغی ' سوچ رکھنے والوں کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور وزیراعلیٰ کی جانب سے ان الفاظ کا بولا جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلوچستان کا معاملہ اب اور زیادہ خطرناک بلکہ نہایت سنگین ہوگیا ہے اور خود حکومت اس بات کو تسلیم کررہی ہے کہ اسے بلوچستان میں علیحدگی پسندی کا سامنا ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی نے میڈیا کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ متعدد کوششوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ نے انہیں بلوچ 'علیحدگی پسندوں' سے رابطوں کا اختیار ہی نہیں دیا۔
"مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ گزشتہ ڈھائی برس کے دوران میں ان' شورش پسندوں' کے اندرونی حلقوں تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہوں جومعصوم لوگوں کو قتل کر رہے ہیں"۔ وزیر اعلیٰ رئیسانی نے مزید انکشاف کیا کہ انہوں نے ان معاملات پر اسٹیبلشمنٹ سے بھی رابطے کئے تاکہ ان لوگوں سے رابطے کیلئے اجازت لی جا سکے جو کہ اب 'پاکستان میں دلچسپی نہیں رکھتے' اور' ایک علیحدہ وطن' کے خواہاں ہیں۔
غالباً وزیر اعلیٰ ان حالات کے سبب یہ بیان دینے پر مجبور ہوئے جن کا صوبہ بلوچستان کو ان دنوں سامنا ہے۔ کوئٹہ صوبائی دارالحکومت ہے مگریہاں شام ہوتے ہی شہر میں ویرانی چھا جاتی ہے ۔ سب سے بڑا خطرہ ٹارگٹ کلنگ ہے جو اب شہر کا معمول بن گیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب دو چار افراد گولیوں کا نشانہ نہ بنتے ہوں۔ حد یہ ہے کہ راکٹوں سے حملے میں پورے پورے مکانات تباہ کردیئے جاتے ہیں۔
مخصوص مذہبی فرقے کے خلاف پر تشدد کارروائیاں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ پہلے پہل بات جلسے ،جلوسوں پر خود کش حملوں کے اکا دکا واقعات تک محدود تھی مگر اب آئے دن کی فائرنگ سے ٹارگٹ کلنگزخطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔
حالات و واقعات گواہ ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ میں اب تک متعدد اعلیٰ سرکاری اہلکار،درجن سے زائد اساتذہ، کئی ڈاکٹرزاورسینکڑوں تاجر ہلاک و اغواء ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ چار ماہ کے دوران چالیس سے زائد سیاسی رہنما اور کارکن لقمہ اجل بن گئے ہیں۔
ملکی میڈیا میں وفاق کی جانب سے صوبے بھر میں آ پریشن کے حوالے سے گاہے بہ گاہے خبریں آتی رہتی ہیں لیکن مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے اختلافات کے سبب آپریشن کو اب تک عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا لیکن ان خبروں سے صوبے میں غیریقینی صورتحال کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے اور یہ صورتحال بھی صوبے کے لئے اچھی علامت نہیں ۔ جان کے خوف سے لوگوں نے صوبے کو خیرباد کہنا شروع کردیا ہے اور حالیہ مدت میں غیر مقامی افراد کی ایک بڑی تعداد بلوچستان سے کوچ کرگئی ہے۔ زیادہ تر افرادصوبہ پنجاب اور سندھ، خصوصاً کراچی منتقل ہورہے ہیں۔
حال ہی میں کوئٹہ سے کراچی آنے والے ایک بینکار کامران احمد عباسی کا کہنا ہے "پورے بلوچستان اور خاص کر کوئٹہ میں آباد غیر مقامی افراد اپنی جائیداد کوڑیوں کے مول فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔جان بچانے کی غرض سے راتوں رات علاقہ چھوڑنا پڑتا ہے ایسے میں نہ تو کوئی جائیداد خریدنے پر فور ی آمادہ ہوتا ہے اور نہ ہی جائیداد کی صحیح قیمت وصول ہوتی ہے"۔
کوئٹہ سے آنے والے ایک اسکول ٹیچر افروز عالم کا کہنا ہے "ڈاکٹرز، پروفیسرز اور سیکنڈری و پرائمری اسکول ٹیچرز کو گھات لگاکر مارا جارہا ہے جو بچ جاتے ہیں انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں یا یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ شہر چھوڑ کر چلے جائیں"۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق سیکیورٹی حکام ہٹ لسٹ میں سب سے اوپر ہیں۔جولائی تک ایک ہزار چھ سو سرکاری ملازم طویل رخصت کی درخواست دے چکے تھے جبکہ بعض نے دوسرے صوبوں میں تبادلے کی درخواست دے رکھی ہے"۔
یہی حال بینک ملازمین اور ملٹی نیشنل فرمز میں کام کرنے والوں کا ہے۔ انہوں نے بھی اپنے اپنے ہیڈآفیسز کو تبادلے کی درخواستیں دے رکھی ہیں۔
ملک کے ایک بڑے روزنامے نے کوئٹہ کے حوالے سے حالیہ مہینوں میں ایک لرزہ خیز رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق "سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی کوئٹہ شہر کا آدھا حصہ نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے جبکہ بقیہ نصف حصہ صرف ایک پٹاخے کی آواز سن کر ہی لرز جاتا ہے۔ کوئٹہ کسی زمانے میں برٹش راج کا گیریژن تھا جو اپنے ثقافتی تنوع اور جاگتی راتوں کے لئے مشہور تھا لیکن اب یہی شہر لسانی، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوچکا ہے"۔
رپورٹ کے مطابق "شہر کا ایک تہائی حصہ نوگوایریا میں تبدیل ہوچکا ہے جو 1980 کے کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ خوفناک ہو چکا ہے۔ ایک غیر بلوچ کبھی سریاب روڈ اور رباب کرم روڈ سے دن کی روشنی میں بھی گزرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ اسپنی روڈ اور سمنگلی روڈ بھی کچھ کم خطرناک نہیں جہاں علاقے کے مسلح نوجوان پتلون پہننے والے کسی بھی شخص کے علاوہ اس کو بھی اپنا نشانہ بنا ڈالتے ہیں جو حلیے بشرے سے غیر مقامی لگتا ہے۔ مقامی پولیس بڑا خطرہ مول لے کر ان علاقوں میں داخل ہونے کی ہمت کرپاتی ہے۔ بعض اوقات تو فرنٹیئر کور کے گشت کرنے والے جوانوں کو بھی حملوں کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔ یہ راستہ بولان میڈیکل کالج تک چلا گیا ہے جسے گولیمار کا بامعنی نام دیا گیا ہے جہاں ایک سے زائد بار دستی بموں سے حملہ ہوچکا ہے"۔
اس سوال پر کہ حکومت کی حکمت عملی کیا ہے ، ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: "حکومت کو چین سے بیٹھنے کا موقع ہی کہاں مل رہا ہے۔ اب تک حکومت کاسارا وقت عدلیہ سے مفاہمت کی کوشش، این آر او کے دفاع، اٹھارہویں ترمیم ،نیب کے معاملات ، سوئس کیسز کودوبارہ کھلنے سے روکنے اور اپنے او پر ہونے والی تنقید کا جواب دینے میں صرف ہوتارہا ہے، حکمت عملی طے کرنے کا تو وقت ملا ہی نہیں۔اس دوران آغاز حقوق بلوچستان جیسے پیکیجز کا اعلان بھی کیا گیاتاکہ بلوچوں کے کچھ آنسو پونچھےجا سکیں، ان کے غم کا کچھ مداوا ہوسکے مگر اب تک حکومت بقاء کی جنگ میں اس قدر مگن رہی کہ عملاً اس پیکیج کے لئے بہت ہی کم وقت نکل پایا"۔