شیخ حسینہ کو کیسے اندازہ ہوا کہ فوج ان کے ساتھ نہیں رہی؟

فائل فوٹو

  • شیخ حسینہ کے استعفے سے ایک روز قبل فوج کے اعلیٰ افسران کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ کرفیو کے نفاذ کے لیے فوج گولی نہیں چلائے گی۔
  • آرمی چیف نے افسران کے اجلاس کے بعد وزیرِ اعظم سے ملاقات کر کے انہیں اس فیصلے سے آگاہ کیا۔
  • شیخ حسینہ نے پیر کی صبح بیرونِ ملک جانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت ان کے ہمراہ ان کی بہن بھی وزیرِ اعظم ہاؤس میں موجود تھیں۔
  • شیخ حسینہ پیر کو عہدے سے استعفیٰ دے کر بھارت پہنچیں تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا بھارت میں قیام عارضی ہونا چاہیے۔

بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے اچانک مستعفی ہو کر بھارت جانے سے ایک رات قبل فوج کے اعلیٰ افسران کا ایک آن لائن اجلاس ہوا تھا جس کی صدارت آرمی چیف جنرل وقار الزمان کر رہے تھے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ فوجی اہلکار کرفیو کے نفاذ کے لیے عام شہریوں پر کسی صورت گولی نہیں چلائیں گے۔

اتوار کی شب ہونے والے اجلاس کے اختتام کے فوراً بعد جنرل وقار الزمان وزیرِ اعظم شیخ حسینہ سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ روانہ ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق آرمی چیف نے شیخ حسینہ سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور آگاہ کیا کہ فوج کے اہلکار ان کے ملک گیر لاک ڈاؤن یا کرفیو کے احکامات پر عمل نہیں کریں گے۔

بنگلہ دیش فوج کے ترجمان لیفٹننٹ کرنل سمیع الدولہ چوہدری نے اتوار کو ہونے والے اعلیٰ فوجی افسران کے اجلاس کی تصدیق کی ہے۔ البتہ انہوں نے اسے ہنگامی حالات میں فوجی قیادت کا کیا جانے والا روایتی اجلاس قرار دیا۔

’رائٹرز‘ کے مطابق فوج کے ترجمان کے سامنے اس اجلاس کی مزید تفصیلات کے متعلق جب سوالات رکھے گئے تو انہوں نے ان کا جواب نہیں دیا۔

'رائٹرز' کو ایک بھارتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شیخ حسینہ کو جنرل وقار الزمان سے ملاقات کے بعد واضح پیغام مل چکا تھا کہ اب وہ فوج کی حمایت کھو چکی ہیں۔

گزشتہ چند دن میں بنگلہ دیش میں پیش آنے والے واقعات پر ’رائٹرز‘ نے کئی ایسے لوگوں سے بات چیت کی ہے جو معاملات سے باخبر تھے جن میں فوج کے چار اعلیٰ افسران اور دو دیگر عہدیدار شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر معلومات فراہم کی ہیں۔

SEE ALSO: شیخ حسینہ کی کابینہ کے وزرا کی گرفتاریوں اور بیرونِ ملک جانے کی اطلاعات

شیخ حسینہ کے استعفے سے قبل فوج کے اعلیٰ افسران کے اس اجلاس اور پھر وزیرِ اعظم کو فوج کی جانب سے عدم تعاون کا پیغام ملنے کی تفصیلات پہلے سامنے نہیں آئی تھیں۔

ان تفصیلات کے سامنے آنے سے کسی حد تک یہ واضح ہوتا ہے کہ کس طرح وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کا 15 برس طویل اقتدار اچانک ختم ہوا اور وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر افراتفری میں بنگلہ دیش سے بھارت روانہ ہوئیں۔

سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والی طلبہ کی تحریک پرتشدد مظاہروں کے بعد وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے استعفے کے مطالبے تک محدود ہو گئی تھی۔

جولائی میں شروع ہونے والی اس تحریک کے دوران اتوار سب سے خون ریز دن ثابت ہوا تھا۔ اس روز جھڑپوں، پولیس کے تشدد اور ہنگامہ آرائی میں لگ بھگ 91 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

درجنوں لوگوں کی ہلاکت کے بعد وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے ملک گیر کرفیو کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا جس کا اعلان فوج کی جانب سے کیا گیا تھا۔

فوج کے تین سابق اعلیٰ افسران کے مطابق بنگلہ دیش میں مظاہروں کی شدت اور اس احتجاج کو ختم کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کے سبب لگ بھگ 300 اموات نے فوج کے لیے شیخ حسینہ کی حمایت برقرار رکھنا مشکل بنا دیا تھا۔

بنگلہ دیش کی فوج کے سابق بریگیڈیئر جنرل سخاوت حسین نے ’رائٹرز‘ سے گفتگو میں بتایا کہ فوج کے اہلکاروں میں بھی شدید بے چینی کا عنصر موجود تھا۔

ان کے بقول اسی بے چینی کے سبب ممکنہ طور پر فوج کے سربراہ پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

شیخ حسینہ کا طویل دورِ حکومت؛ جمہوریت کی جدوجہد سے عوامی مخالفت کا سفر

ان کا کہنا تھا کہ فوجی اہلکار سڑکوں پر ڈیوٹی انجام دینے کے لیے موجود تھے اور ان کو سب نظر آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے شیخ حسینہ کے پیر کو استعفیٰ دینے سے دو دن قبل ہفتے کو ہی اشارہ دے دیا تھا کہ وزیرِ اعظم کے لیے فوج کی حمایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔

خیال رہے کہ جنرل وقار سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے دور کے رشتے دار بھی ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے سابق آرمی چیف جنرل مستفیض الرحمٰن کے داماد ہیں جو بنگلہ دیش کے بانی اور شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے کزن تھے۔ جنرل مستفیض نے 1997 سے 2000 کے درمیان بنگلہ دیش کی فوج کی اس وقت قیادت کی تھی جب شیخ حسینہ پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم بنی تھیں۔

جنرل وقار الزمان نے ہفتے کو فوج کے جونیئر افسران سے خطاب کیا تھا۔ اس اجلاس میں بہت بڑی تعداد میں فوجی وردیوں میں ملبوس افسران شریک تھے۔ آرمی چیف لکڑی کی ایک آرائشی کرسی پر بیٹھے افسران سے مخاطب تھے۔

اس اجلاس کی کچھ تفصیلات بعد ازاں فوج کے ترجمان نے جاری بھی کی تھیں۔

فوجی ترجمان نے بتایا تھا کہ آرمی چیف نے افسران سے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عام لوگوں کی جان کی حفاظت کرنے کی تاکید کی تھی۔

یہ پہلا موقع تھا جب فوج کی جانب سے یہ اشارہ دیا گیا تھا کہ وہ طاقت کے ذریعے احتجاج کو دبانے میں معاون نہیں بنے گی۔ اس کے بعد سے شیخ حسینہ کے اقتدار کو خطرات لاحق ہو چکے تھے۔

SEE ALSO: ناہد اسلام: شیخ حسینہ کے خلاف احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے والے اسٹوڈنٹ لیڈر کون ہیں؟

پیر کو بنگلہ دیش میں غیر معینہ مدت کے لیے نافذ کرفیو کا پہلا دن تھا۔ لیکن بریگیڈیئر جنرل (ریٹائرڈ) محمد شاہد الانعم خان کی طرح کئی سابق فوجی افسران اور اہلکار ایسے تھے جو کرفیو کے نفاذ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

شاہد الانعم خان کے بقول ہمیں فوج نے نہیں روکا۔ فوج نے وہی کردار ادا کیا جو اس نے ادا کرنے کا عہد کیا تھا۔

پیر کو جب کرفیو کے دوران مظاہرین سڑکوں پر آ چکے تھے تو دوسری جانب شیخ حسینہ ڈھاکہ میں سخت سیکیورٹی میں ایوانِ وزیرِ اعظم میں موجود تھیں۔

ملک کے سب سے بڑے شہر ڈھاکہ کے وسط میں ہزاروں افراد جمع ہو چکے تھے اور ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ وزیرِ اعظم مستعفی ہوں۔

صورتِ حال سے باخبر بھارتی عہدیدار اور بنگلہ دیشی حکام نے ’رائٹرز‘ کو بتایا ہے کہ شیخ حسینہ کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اب صورتِ حال ان کے کنٹرول میں نہیں رہی جس کے بعد 76 سالہ وزیرِ اعظم نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

رپورٹ کے مطابق ڈھاکہ میں وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں شیخ حسینہ کے ہمراہ ان کی بہن شیخ ریحانہ بھی موجود تھیں۔ ان کی بہن ویسے تو برطانیہ کے شہر لندن میں رہتی ہیں لیکن اس وقت وہ ڈھاکہ میں تھیں۔

حکام کے بقول دونوں بہنوں نے آپس میں مشورہ کیا اور دوپہر کے کھانے کے وقت وہ ڈھاکہ سے پڑوسی ملک بھارت کے لیے روانہ ہوگئیں۔

بھارت کے وزیرِ خارجہ جے شنکر نے منگل کو بھارتی پارلیمان کو آگاہ کیا تھا کہ نئی دہلی بنگلہ دیش میں جن سیاسی قوتوں سے رابطے میں تھا ان پر جولائی سے زور دیتا رہا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے صورتِ حال کو حل کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیر کو جب کرفیو کے باوجود ڈھاکہ میں لوگ جمع ہوئے تو شیخ حسینہ نے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کے بعد مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔

SEE ALSO: بنگلہ دیش کی صورتِ حال بھارت کے لیے تشویش ناک ہے: مبصرین

جے شنکر کا کہنا تھا کہ انتہائی مختصر نوٹس پر انہوں نے فی الحال بھارت آنے کی درخواست کی تھی۔

بھارت کے ایک عہدیدار نے ’رائٹرز‘ کو بتایا ہے کہ شیخ حسینہ کو سفارتی طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا کہ ان کا بھارت میں قیام عارضی ہونا چاہیے۔ نئی دہلی کو ان کے قیام سے بنگلہ دیش میں مستقبل میں بننے والی حکومت کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ نے عارضی قیام سے متعلق ان اطلاعات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

ادھر طلبہ تحریک کے رہنماؤں کی اپیل پر بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔

محمد یونس نے بھارتی اخبار ‘انڈین ایکسپریس‘ سے گفتگو میں کہا ہے کہ بھارت کے غلط لوگوں سے اچھے تعلقات تھے۔

انہوں نے نئی دہلی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’برائے مہربانی اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِ ثانی کیجیے۔"

پیر کی دوپہر بنگلہ دیش کی ایئر فورس کا ایک سی ون تھرٹی طیارہ دہلی کے قریب ہنڈن ہوائی اڈے پر اترا تو اس میں شیخ حسینہ سوار تھیں۔

بھارتی سیکیورٹی حکام کے مطابق شیخ حسینہ کے استقبال کے لیے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول پہلے سے موجود تھے۔ طیارے سے باہر آنے کے بعد شیخ حسینہ کی ملاقات اجیت ڈوول سے ہوئی۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ اس ملاقات میں کیا گفتگو کی گئی۔

شیخ حسینہ کو بھارت میں محفوظ مقام پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ لیکن بنگلہ دیش میں سابق فوجی عہدیدار انہیں بیرونِ ملک جانے کی اجازت دینے پر خوش نہیں ہیں۔

ڈھاکہ کی سڑکوں پر پیر کو کرفیو کے دوران نکلنے والے بریگیڈیئر جنرل (ریٹائرڈ) محمد شاہد الانعم خان کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ کو بیرونِ ملک جانے کے لیے محفوظ راستہ نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے شیخ حسینہ کو بھارت روانہ کیے جانے کے فیصلے کو حماقت قرار دیا ہے۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔