بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے ایک رہنما کو 1971 کی 'جنگ آزادی' کے دوران جنگی جرائم اور میں سنائی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے۔
62 سالہ محمد قمر الزمان جو جماعت اسلامی کے معاون سیکرٹری جنرل ہیں، کو گزشتہ سال جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی گئی تھی۔
جس کے خلاف اُنھوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی تھی اور پیر کو ملک کی اعلیٰ عدالت نے خصوصی ٹربیونل کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
اتوار کو بنگلہ دیش کے خصوصی ٹربیونل نےجماعت اسلامی کے ایک دوسرے رہنما کو بھی جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی تھی۔
جنگی جرائم کی سماعت کرنے والے خصوصی ٹربیونل نے ملک کی بڑی مذہبی جماعت کے رہنما میر قاسم علی کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے، سزائے موت سنائی تھی۔
ٹربیونل کی طرف سے قاسم علی کو ایک نوجوان شخص کو اغواء کے بعد قتل کرنے سمیت آٹھ جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔
جماعت اسلامی کے رہنما قاسم علی کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے۔
بنگلہ دیش کا دعویٰ ہے کہ ملک کی 'جنگ آزادی' کے دوران لاکھوں افراد کو ہلاک کیا گیا جب کہ خواتین کی آبروریزی کی گئی۔
گزشتہ ہفتہ خصوصی ٹریبیونل نے جماعت اسلامی کے ایک رہنما مطیع الرحمن کو بھی جنگی جرائم پر موت کی سزا سنائی تھی۔
حکومت نے حزب مخالف کے نو رہنماؤں کے خلاف تحقیقات شروع کیں جن میں سے سات کا تعلق جماعت اسلامی اور دو کا بنگلہ دیش کی نیشنل پارٹی سے ہے۔
ستمبر میں سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما دلاور حسین، جن کو انہی جرائم کے تحت سنائی گئی تھی بعد میں اس کو کم کر کے عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقدیر مولا کی سزائے موت کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا تھا، جس پر گزشتہ سال دسمبر میں عمل درآمد کیا گیا۔
حزب مخالف کی دونوں ان مقدمات پر تنقید کرتے ہوئے کہتی آئی ہیں کہ ان کے سیاسی محرکات ہیں اور بقول ان کے، ان کا مقصد حزب مخالف کو نشانہ بنانا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جنگی جرائم کے ٹربیونل میں کی جانے والی سماعت بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔