بنگلہ دیش کے ایک خصوصی ٹربیونل نے جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما کو 1971ء میں "جنگ آزادی" کے دوران قتل و غارت گری کے جرم میں سزائے موت سنائی ہے۔
ایک ہفتے کے دوران وہ جماعت اسلامی کے دوسرے بڑے رہنما ہیں جنہیں سزائے موت سنائی گئی ہے۔
62 سالہ میر قاسم علی جماعت اسلامی کی پالیسی سازی کی تنظیم کے رکن ہیں۔
گزشتہ جمعرات کو ٹربیونل نے جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمٰن نظامی کو بھی 1971ء کے 'جنگی جرائم ' میں موت کی سزا سنائی تھی جب کہ ایک دوسرے سینیئر رہنما کو پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے۔
اتوار کو جماعت اسلامی کی طرف سے ملک گیر ہڑتال کی گئی تھی تاہم کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
خصوصی ٹربیونل کی طرف اس سے قبل دیے گئے فیصلوں پر رد عمل کے دوران تشدد کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
ٹربیونل نے قاسم علی کو ایک شخص کو اغواء کے بعد قتل کرنے سمیت آٹھ جرائم کا مرتکب قرار دیا جن میں سے دو میں انہیں سزائے موت سنائی گئی جبکہ دوسرے جرائم میں 72 سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔
2010ء سے خصوصی عدالت نے جماعت اسلامی کے ان رہنماؤں کے خلاف 10 فیصلے دیے جنہوں نے کھلم کھلا (بنگلہ دیش) آزادی کے خلاف مہم چلائی تاہم انہوں نے ظالمانہ کارروائیوں سے انکار کیا ہے۔
وزیر اعظم حسینہ واجد کہہ چکی ہیں کہ بنگلہ دیش کے پاکستان سے الگ ہونے کے چالیس سال بعد جنگی جرائم سے متعلق انصاف کا حصول بڑے عرصے سے ہونا باقی تھا۔ تاہم ان پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ خصوصی ٹربیونل کے ذریعے ملک کی حزب اختلاف کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔