|
نئی دہلی—بنگلہ دیش میں طلبہ کے پُر تشدد احتجاج کے سبب وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے اور ملک چھوڑ کر بھارت آمد نے بھارتی سیاسی، سفارتی و صحافتی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پیر کی شب میں کابینہ کمیٹی برائے سلامتی کے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت جس میں وزیرِ اعظم کے علاوہ وزیرِ داخلہ امت شاہ، وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر، وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور انٹیلی جینس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔
قبل ازیں وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے وزیرِ اعظم کو بنگلہ دیش کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا۔
کانگریس کے ذرائع کے مطابق کانگریس رہنما اور لوک سبھا میں حزبِ اختلاف کے قائد راہل گاندھی نے بھی ایس جے شنکر سے ملاقات کرکے بنگلہ دیش کے حالات پر گفتگو کی۔
دریں اثنا بھارت نے بنگلہ دیشی فوجی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں امن قائم کرے اور صورت حال کو معمول پر لائے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مودی حکومت نے شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے کے بعد بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ جنرل وقار الزماں کو قیامِ امن میں ہر طرح کا تعاون دینے کی بات کہی ہے۔
ادھر ایسا سمجھا جاتا ہے کہ شیخ حسینہ کو بھارت میں سرکاری مہمان کے طور پر رکھا گیا ہے۔
قبل ازیں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے منگل کی صبح کو ایک کل جماعتی اجلاس میں بنگلہ دیش کی صورت حال کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
ادھر بھارتی حکومت نے سرحدی محافظ دستے ’بارڈر سیکیورٹی فورس‘ (بی ایس ایف) کو 24 گھنٹے الرٹ پر رکھا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 4096 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر آمد و رفت بند کر دی گئی ہے جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان چلنے والی میتری بس بھی روک دی گئی ہے۔
ریلویز نے ٹرینیں اور ایئر انڈیا اور نجی ایئر لائنز انڈی گو نے اپنی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔
دہلی سے متصل غازی آباد کے ہنڈن ایئر بیس سے فضائیہ کے دو طیاروں اور لکھنؤ سے ایک طیارے کو سیکیورٹی اہلکاروں کو محفوظ سرحدی مقامات پر لانے کے لیے ڈھاکہ روانہ کیا گیا۔
ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمیشن اور دہلی میں بنگلہ دیشی ہائی کمیشن کی سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
شیخ حسینہ وزیرِ اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے فوری بعد ڈھاکہ سے بھارت پہنچ گئی تھیں۔
ان کا طیارہ پیر کی شام ساڑھے پانچ بجے دہلی کے قریب ہنڈن ایئربیس پر اترا۔ ان کے ساتھ ان کی بہن بھی تھیں۔
وہاں اترنے سے قبل وہ ریاست تری پورہ کے دار الحکومت اگرتلہ پہنچی تھیں۔ اگرتلہ ان کے اور ان کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے لیے کافی اہمیت کا حامل رہا ہے۔
ہنڈن ایئر بیس پر اترنے کے فوری بعد انھوں نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور سیکیورٹی اہل کاروں سے ملاقات کی۔ بنگلہ دیش کی صورتِ حال اور اپنے مستقبل کے پلان کے بارے میں گفتگو کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انھیں سخت سیکیورٹی میں ایئر بیس پر کسی محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست کی ہے جب تک انھیں وہاں پناہ کی اجازت نہیں مل جاتی وہ بھارت میں رہیں گی۔
بھارت شیخ حسینہ کو اپنا دوست سمجھتا ہے اور بنگلہ دیش میں ان کی جماعت ’عوامی لیگ‘ کی 15 سالہ حکومت میں بنگلہ دیش سے بھارت کے بہت اچھے روابط رہے ہیں۔
واضح رہے کہ کوٹہ سسٹم کے خلاف بنگلہ دیش کے طلبہ احتجاج کر رہے ہیں۔ احتجاج کے دوران پرتشدد مظاہرے ہوئے اور طلبہ اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ٹکراؤ ہوا جس کے نتیجے میں اطلاعات کے مطابق کم از کم 300 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے اور صورتِ حال میں استحکام آئے گا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے موجودہ حالات بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
بھارت بنگلہ دیش تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار گوتم لاہری کا کہنا ہے کہ اب بنگلہ دیش میں انتہا پسندوں کا ابھار ہوگا جو بھارت کے لیے بہر حال خطرے کی گھنٹی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں گوتم لاہری نے کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کی ترقی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت قبل ہی بنگلہ دیش کے لیے بھارت کی مدد جاری تھی اور دونوں ملکوں میں اچھے تعلقات تھے۔
ان کے بقول بنگلہ دیش کو بھارت کی موجودہ حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اور سابقہ حکمراں جماعت ’کانگریس‘ دونوں کی حمایت حاصل رہی ہے اور دونوں کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔
شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش میں موجود شمال مشرقی ریاستوں میں شورش کے خلاف سخت کارروائی کی تھی اور شورش پسندوں کو گرفتار کرکے بھارت کے حوالے کیا۔ گوتم لاہری کے مطابق اس کے بعد سے شمال مشرقی ریاستوں میں امن ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے کسی معاملے پر بنگلہ دیش میں جب بھی احتجاج ہوا تو شیخ حسینہ کی حکومت نے بھارت مخالف عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جس کے نتیجے میں بھارت مخالف رجحانات دب گئے تھے۔
گوتم لاہری کہتے ہیں کہ اب وہاں اسلامی انتہا پسند ابھر کر آئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت ان کے ساتھ کیسا رویہ رکھتی ہے۔ لیکن اگر ان کے ساتھ نرمی کی گئی تو بھارت کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
بعض دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ چوں کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے مظاہروں میں بھارت مخالف جذبات کا بھی دخل ہے لہٰذا ب وہاں بھارت کے مفادات پر اثر پڑ سکتا ہے۔
ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش میں نئی حکومت پر جماعتِ اسلامی کا اثر رہے گا۔ مظاہروں میں جماعتِ اسلامی کے کارکن بھی شامل رہے۔
جماعتِ اسلامی سے بھارتی حکومت کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے بھی جماعتِ اسلامی کے خلاف سخت اقدامات کیے تھے۔
سینئر تجزیہ کار بھارتی مشرا ناتھ بھی موجودہ صورتِ حال کو بھارت کے لیے خطرناک تصور کرتے ہیں۔
بھارتی مشرا ناتھ کا کہنا ہے کہ شمال مشرق کے شورش پسند گروپ ایک بار پھر بنگلہ دیش میں سرگرم ہو سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں احتجاج کے حوالے سے مزید جانیے
ناہد اسلام: شیخ حسینہ کے خلاف احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے والے اسٹوڈنٹ لیڈر کون ہیں؟بنگلہ دیش: جماعت اسلامی پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت پابندی عائدبنگلہ دیش میں اموات کے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے مکمل اور شفاف تحقیقات ضروری ہیں: امریکہبنگلہ دیش: شیخ حسینہ کے استعفے کی نوبت کیوں آئی؟انھوں نے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کی نیوز ویب سائٹ کے لیے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ حالات کی تبدیلی کے پیش نظر شورش پسندوں کو بنگلہ دیش میں پناہ مل سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ باہمی تجارت بھی نمایاں طور پر متاثر ہوگی کیوں کہ بھارت اور جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی زمینی بندرگاہ ’پیٹراپول‘ پر تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہو گئی ہیں۔
حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش میں چین کی تجارتی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ بھارتی مشرا ناتھ کے مطابق شیخ حسینہ کے دور میں بھارت اور چین کے ساتھ بنگلہ دیش کے متوازن تعلقات تھے۔ شیخ حسینہ چین کے ساتھ اپنی تمام تر تجارتی شراکت داری کے باوجود بھارت کے مفادات کا خیال رکھتی تھیں۔
گوتم لاہری کہتے ہیں کہ چین بنگلہ دیش میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ اب نئی صورت حال میں وہاں چین کی سرگرمیوں کے بہت زیادہ بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔ یہ صورتِ حال بھی بھارت کے لیے تشویش ناک ہے۔
بنگلہ دیش میں رواں سال کے جنوری میں ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں مغربی ملکوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت بھارت نے بنگلہ دیش سے اپنی دوستی نبھائی اور بنگلہ دیش و امریکہ و مغربی ملکوں کے درمیان ثالثی کی تھی۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش میں بغاوتوں اور فوجی انقلاب کی تاریخ: 1975-2024نئی دہلی نے امریکہ سے کہا کہ اگر بنگلہ دیش سے تعلقات غیر مستحکم کیے جائیں گے تو چین کو وہاں اپنی تجارتی سرگرمیاں تیز کرنے کا موقع مل جائے گا جو کہ نہ تو امریکہ کے لیے اچھا ہوگا نہ ہی بھارت کے مفاد میں ہوگا۔
بنگلہ دیش میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر پناک رنجن چکرورتی کے مطابق بھارت بنگلہ دیش کی صورتِ حال پر باریکی سے نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ وہاں قائم ہونے والی نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
انھوں نے خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شیخ حسینہ کے استعفے کے بعد وہاں غیر یقینی حالات پیدا ہو گئے ہیں جو کہ خطے کے مفاد میں نہیں ہیں۔
انھوں نے یہ توقع ظاہر کی کہ نئی حکومت سے بھی بھارت کے تعلقات اچھے ہوں گے کیوں کہ حکومت بدلتی ہے مگر ملکوں کے مفادات طویل مدتی ہوتے ہیں جو حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتے۔ بھارت نے وہاں کی تمام حکومتوں، یہاں تک کہ فوجی حکومت کے ساتھ بھی تعلقات قائم رکھے تھے۔
نئی دہلی کے متعدد اخبارات نے بنگلہ دیش کی صورتِ حال اور شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے اور ان کے ملک چھوڑنے پر اداریے اور تجزیاتی رپورٹس شائع کی ہیں۔ بیشتر اخباروں نے موجودہ صورت حال کو بھارت کے لیے تشویش ناک قرار دیا ہے۔