پاکستان میں ممنوعہ مذہبی گروہ سماجی میڈیا پر عام نظر آتے ہیں: رپورٹ

فائل

ناقدین کہتے ہیں کہ سیاسی مخالفین پر دباؤ ڈالنے اور انتہا پسند طبقات کے خلاف ’’مرضی کا اقدام‘‘ مذہبی شدت پسندی کو ہوا دیتا ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کے بقول، ’’نام نہاد قومی سلامتی کے نام پر آزادیِ اظہار کے خلاف بڑھتی ہوئی قدغنیں لاگو کرنے سے ایک ستھرا دانش پر مبنی محل تعمیر نہیں کیا جا سکتا، جو انسداد دہشت گردی کے لیے لازم ہے‘‘

ایاز گل/نفیسہ ہودبھائی

بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں درجنوں ممنوعہ شدت پسند، فرقہ وارانہ، دہشت گرد اور ملک دشمن گروپ سماجی میڈیا، خاص طور پر فیس بک پر، منافرت پر مبنی تقاریر کرتے نظر آتے ہیں، جن کا حکام توڑ پیش نہیں کرتے۔

انگریزی زبان کے روزنامہ ’ڈان‘ میں منگل کو شائع ہونے والے ایک تحقیقی مضمون میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ممنوعہ قرار دی گئی 64 تنظیموں میں سے 41 سماجی میڈیا نیٹ ورکس کے صارفین کو دستیاب ہیں، یعنی اُن کے گروپوں کے اور ذاتی سینکڑوں صفحات شائع ہوتے ہیں۔

ایسے میں جب پاکستان کی جانب سے کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کو کافی عرصے سے ترجیحی بنیادوں پر اقدام قرار دیا جا رہا ہے، ناقدین کہتے ہیں کہ شدت پسند سرگرمیوں پر سخت نگرانی کی عدم موجودگی کے باعث اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کے خلاف شروع کی گئی حالیہ کارروائی کا مقصد محض سیاسی مخالفین کی آواز کو دبانے اور سرکاری اداروں کے احتساب کے مطالبے کو رد کرنے کے مترادف ہے۔

اس اخباری رپورٹ پر فوری طور پر وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے کوئی بیان نہیں دیا جب کہ حکومت نے گذشتہ الزامات کو مسترد کیا تھا کہ سماجی میڈیا کے خلاف نام پر اقدام سیاسی مخالفین کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، جو سماجی میڈیا کے خلاف سرگرم عمل ہوتی ہے، اُس نے زیادہ تر عمران خان کی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور حزب مخالف کی دیگر جماعتوں کے سرگرم کارکنان کے خلاف چھان بین کی اور اُنھیں ہی زیر حراست لیا۔

بدعنوانی کے الزامات پر، عمران خان، نواز شریف حکومت سے اقتدار چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، وہ سڑکوں پر احتجاج کا مؤقف اپنائے ہوئے ہیں۔ تجزیہ کار اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ اُن کی حزب اختلاف کی جماعت نے سماجی میڈیا کو مؤثر طور پر استعمال کیا ہے، تاکہ عمل داری کے معاملات کو اجاگر کیا جاسکے اور اٹھ کھڑے ہونے کے لیے پاکستانی عوام کو متحرک کیا جائے۔

ناقدین کہتے ہیں کہ سیاسی مخالفین پر دباؤ ڈالنے اور انتہا پسند طبقات کے خلاف ’’مرضی کا اقدام‘‘ مذہبی شدت پسندی کو ہوا دیتا ہے۔

حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے، سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ’’نام نہاد قومی سلامتی کے نام پر آزادیِ اظہار کے خلاف بڑھتی ہوئی قدغنیں لاگو کرنے سے ایک ستھرا دانش پر مبنی محل تعمیر نہیں کیا جا سکتا، جو انسداد دہشت گردی کے لیے لازم ہے‘‘۔

’ڈان‘ کی اِس رپورٹ کے نتیجے میں سماجی میڈیا کو دبانے کی حکومتی پالیسی کے خلاف تنقید بڑھ رہی ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں آیا ملک میں پُرتشدد انتہا پسندی کے خلاف اقدام کی جگہ آزادیِ اظہار پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’’نفرت کے دروازے کھلے ہیں، جب کہ شعراٴ، فنکاروں اور صحافیوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے‘‘۔

ادھر، اِسی موضوع پر جمعرات کو واشنگٹن میں ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں برگیڈیئر (ر) سعید نذیر، ایکسپریس ڈجیٹل کے سربراہ، حسان خان اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن رخشندہ ناز نے حصہ لیا۔

دفاعی تجزیہ کار برگییڈیئر (ر) سعید نذیر نے کہا ہے کہ کالعدم تنظیمیں نام بدل کر سماجی ویب سائٹس پر اپنے وجود کا اظہار کرتے ہیں۔ حسان خان نے اس بات سے اتفاق کیا کہ دہشت گرد تنظیموں نے بڑی چالاکی سے فیس بک پر پروپیگنڈا سیکھا ہے۔ انسانی حقوق کی سرگرم کارکن، رخشندہ ناز کے بقول، دہشت گرد تنظیموں کو میڈیا کے مختلف شعبوں سے اپنا پرچار کرنے کی آزادی ہے۔

تفصیل کے لیے منسلک آڈیو رپورٹ سنئیے:

Your browser doesn’t support HTML5

Banned outfits on FB, Twitter