پاکستانی حکومت کی طرف سے سماجی میڈیا پر اظہار رائے کی بے جا پابندیوں اور خوف و ہراس کی فضا پر انسانی حقوق کے غیر سرکار ی ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان 'ایچ آرسی پی' اور انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
’ایچ آر سی پی‘نے جمعہ کی شب جاری کردہ بیان میں حکومتی نمائندوں کی طرف سے ایسے بیانات کو بھی تشویشناک قرار دیا ہے کہ سوشل میڈیا پر مسلح افواج کے خلاف ’’ہتک کے کسی بھی گمان‘‘ کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ اختتام ہفتہ پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے ایک غیر معمولی بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فوج سے متعلق سوشل میڈیا پر ’’بلاجوز‘‘ تنقید نا قابل برداشت ہے اور اُنھوں نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے سائبر کرائم ونگ کو ایسے افراد کے خلاف بلاتفریق کارروائی کا حکم دیا تھا۔
اس کے بعد سے حکام نے ملک میں سماجی میڈیا پر سرگرم متعدد کارکنوں کو گرفتار کر کے ان کے کمپوٹر اور موبائل فونز کو قبضہ میں لے لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق حراست میں لیے گئے زیادہ ترافراد کا تعلق حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف سے ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے متبنہ کیا ہے کہ اگر حکومت نے سماجی میڈیا پر سرگرم ان کی جماعت کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کی تو تحریک انصاف سڑکوں پر احتجاج کرے گی۔
’ایچ آر سی پی‘ کی طرف سے کہا گیا کہ رائے کے اظہار اور معلومات کی آزادی پر کسی بھی قسم کی پابندی عالمی میثاق برائے شہری وسیاسی حقوق (آئی سی سی پی آر) اور پاکستان کے آئین کی دفعہ 19 کی مطابقت میں ہونی چاہیے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آزادی اظہار کو روکنا جمہوری قدروں کے خلاف ہے۔
" سماجی میڈیا پر اس وقت جو تبصرے ہورہے ہیں اس پر حکومت اور فوج دونوں پریشان ہیں اور اس کو روکنے کے لیے وہ کوشش کررہے ہیں کسی طرح ایسا طریقہ کار بنا دیا جائے کہ یہ رک جائے ۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کی آزادی اظہار لوگوں کا جمہوری حق ہے"
پاکستان میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا صارفین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی تنظیم ’بائیٹس فار آل‘ سے وابستہ ہارون بلوچ کا کہنا ہے ملک میں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس کے ذریعے مختلف معاملات پر آواز بلند کرنے والوں کے لیے جگہ سکڑتی جارہی ہے
" مجھے خدشہ ہے کہ یہ صورت حال مزید گمبھیر ہوگی اس میں بہتری نہیں ہوگی اور پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریاں ہیں جن کو پورا کرنے کا عزم اس نے کر رکھا ہے اور پا کستا ن کو اس طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔"
واضح رہے کہ رواں ہفتے ہی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومین رائٹس واچ ’ایچ آر ڈبلیو‘ نے انٹرنیٹ پر مخالف نکتہ نظر رکھنے والوں کے خلاف حکومت پاکستان کے اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، ایسے اقدام کو روکنے پر زور دیا تھا۔
’ایچ آر ڈبلیو‘ کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان میں آن لائن رائے کا اظہار کرنے والوں کے خلاف ایسے ’کریک ڈاؤن‘ سے اُن افراد کو خطرہ لاحق ہے جو بعض معاملات پر مختلف نکتہ نظر رکھتے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے رواں ہفتے پارلیمان میں جمع کروائے گئے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک، ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تقریباً 900 افراد کے خلاف مقدمات درج کرچکا ہے۔
حکومت پاکستان کے عہدیداروں کا موقف ہے کہ حکومت آزادی اظہار پر کسی طرح کی قدغن کی خواہاں نہیں ہے اور عہدیداروں کے بقول میڈیا ملک میں ماضی کی نسبتاً کہیں زیادہ آزاد ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ آزاد اظہار کی آڑ میں قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔