برطانیہ: غزہ پالیسی پر اختلاف، سعیدہ وارثی مستعفی

’میں نے غزہ کے معاملے پر حکومت کی پالیسی کی مزید حمایت جاری نا رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے، گہرے دکھ کے ساتھ، اپنا استعفی وزیر اعظم کو بھجوا دیا ہے‘

برطانوی دفتر خارجہ کی سینئر وزیرسعیدہ وارثی نے منگل کے روز غزہ پر برطانوی پالیسیوں کے خلاف وزیر اعظم کو استعفی پیش کر دیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، پاکستانی نژاد برطانوی وزیر بیرونس سعیدہ وارثی نے آج صبح ٹوئیٹر پر ایک بیان ارسال کیا جس میں انھوں نے کہا،'میں نے غزہ کے معاملے پر حکومت کی پالیسی کی مزید حمایت جاری نا رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے گہرے دکھ کے ساتھ اپنا استعفی وزیر اعظم کو بھجوا دیا ہے۔'


برطانوی میڈیا کے مطابق، سعیدہ وارثی نے اپنے استعفی میں لکھا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کی پیش رفت کے سلسلے میں برطانوی حکومت کی پالیسی کے حوالے سے میرے خیالات اب تک ایک جیسے رہے ہیں۔ لیکن، غزہ پر موجود بحران کے دوران، ہمارا نقطہٴنظر اور زبان اخلاقی طور پر منصفانہ نہیں ہے۔ یہ برطانیہ کے قومی مفاد میں نہیں، جس کے اثرات ہماری مقامی اور بین الاقوامی ساکھ کو طویل مدتی نقصان پہنچا نے کا باعث بن سکتے ہیں‘۔


واضح رہے کہ 43 سالہ بیرونس سعیدہ وارثی برطانوی کابینہ میں شامل ہونے والی پہلی مسلم خاتون وزیر رہی ہیں۔ وہ برطانوی ایوان بالا کی رکن ہیں۔ جبکہ، 2010 ء میں وہ پہلی مرتبہ اس وقت کابینہ کی رکن بنیں جب وہ کنزرویٹیو جماعت کی چئیر پرسن تھیں۔


ان دنوں سعیدہ وارثی دفتر خارجہ کے دفتر کی سنئیر وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی تھیں اور عقائد اور کمیونٹیز کے امور کی وزیر مقرر تھیں۔


سعیدہ وارثی کے استعفی کی خبر پر لندن کے میئر بورس جانسن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک پریشان کُن خبر ہے۔ لیکن، وہ امید کرتے ہیں کہ سیعدہ وارثی جلد سے جلد کابینہ میں واپس آجائیں گی۔


بیرونس وارثی کے استعفی کے جواب میں وزیر اعظم کے دفتر ڈاوٴننگ اسٹریٹ کی جانب سے بھی ردعمل کا اظہار سامنے آیا ہے۔


سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق، ڈاوٴننگ اسٹریٹ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم کو افسوس ہے کہ 'بیرونس سعیدہ وارثی نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی بحثیت وزیر اور حزب اختلاف عمدہ کارکردگی رہی ہے۔ جس پر ان کے مشکور ہیں۔‘


بیان میں کہا گیا کہ، ’ہماری پالیسی ہمیشہ اور مسلسل واضح رہی ہے۔ غزہ کی صورتحال ناقابل برداشت ہے اور ہم دونوں فریقین پر فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے اتفاق کرنے پر زور دیتے رہے ہیں‘۔