واقع کے مقام پر موجود عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ دبی ہوئی لاشوں سے اٹھنے والا تعفن باقی ہے، جب کہ امدادی کارکن یہ نہیں جانتے کہ مزید کتنے ہلاک شدگان ملبے تلے دبے ہوئے ہیں
واشنگٹن —
بنگلہ دیش کے ملبوسات کے کارخانے کی عمارت منہدم ہونے کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد بڑھ کر 600سے تجاوز کرگئی ہے، جب کہ ملبے سےلاشیں نکالنےکا کام اب بھی جاری ہے۔
اتوار کے روز حکام نےاموات کی نئی تعداد کا اعلان کیا۔ تاہم، اُنھوں نے اِس خدشے کا اظہار کیا کہ ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
واقع کے مقام پر موجود عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ دبی ہوئی لاشوں سے اٹھنے والا تعفن باقی ہے، جب کہ امدادی کارکن یہ نہیں جانتے کہ مزید کتنے ہلاک شدگان ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
کارخانے کی عمارت 24اپریل کو زمین بوس ہوئی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فوت ہونے والوں کی شناخت ایک مشکل مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ پہچان مرنے والوں کی جیب سے ملنے والے شناختی کارڈوں اور موبائل فونز سے ہی ممکن ہے۔
جمعے کے روز بنگلہ دیش کے وزیر مالیات نے بتایا کہ یہ واقع ’ایک حادثے‘ کے باعث پیش آیا۔ عبدالمحیط کا کہنا تھا کہ اُنھیں اِس بات کی فکر نہیں کہ غیر ملکی خردہ فروش ملک چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس طرح کے واقعات کہیں بھی ہوسکتے ہیں۔
بنگلہ دیش کی 80فی صد برآمدات کا انحصار پارچہ جات کی صنعت پر ہے، جس سے ملک کو تقریباً 80فی صد کا کاروبار ہوتا ہے۔
ٹیکسٹائل کی متعدد غیر ملکی کمپنیوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُن خاندانوں کو مدد فراہم کریں گے، جن کے افراد اشیاٴتیار کرتے ہوئے فوت ہو گئے ہیں۔
واقع کے بعد حکام نے کم از کم نو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ حراست میں لیے گئے لوگوں میں عمارت کے مالک، عمارت میں کام کرنے والی کئی ایک کمپنیوں کے مالکان اور عمارت کی تعمیر کے ذمہ دار انجنیئر شامل ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ عمارت گِرتے وقت، اُس میں 3000سے زائد افراد موجود تھے۔
اتوار کے روز حکام نےاموات کی نئی تعداد کا اعلان کیا۔ تاہم، اُنھوں نے اِس خدشے کا اظہار کیا کہ ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
واقع کے مقام پر موجود عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ دبی ہوئی لاشوں سے اٹھنے والا تعفن باقی ہے، جب کہ امدادی کارکن یہ نہیں جانتے کہ مزید کتنے ہلاک شدگان ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
کارخانے کی عمارت 24اپریل کو زمین بوس ہوئی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فوت ہونے والوں کی شناخت ایک مشکل مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ پہچان مرنے والوں کی جیب سے ملنے والے شناختی کارڈوں اور موبائل فونز سے ہی ممکن ہے۔
جمعے کے روز بنگلہ دیش کے وزیر مالیات نے بتایا کہ یہ واقع ’ایک حادثے‘ کے باعث پیش آیا۔ عبدالمحیط کا کہنا تھا کہ اُنھیں اِس بات کی فکر نہیں کہ غیر ملکی خردہ فروش ملک چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس طرح کے واقعات کہیں بھی ہوسکتے ہیں۔
بنگلہ دیش کی 80فی صد برآمدات کا انحصار پارچہ جات کی صنعت پر ہے، جس سے ملک کو تقریباً 80فی صد کا کاروبار ہوتا ہے۔
ٹیکسٹائل کی متعدد غیر ملکی کمپنیوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُن خاندانوں کو مدد فراہم کریں گے، جن کے افراد اشیاٴتیار کرتے ہوئے فوت ہو گئے ہیں۔
واقع کے بعد حکام نے کم از کم نو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ حراست میں لیے گئے لوگوں میں عمارت کے مالک، عمارت میں کام کرنے والی کئی ایک کمپنیوں کے مالکان اور عمارت کی تعمیر کے ذمہ دار انجنیئر شامل ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ عمارت گِرتے وقت، اُس میں 3000سے زائد افراد موجود تھے۔