بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام پر امریکی تنقید، چین کی برہمی

شنگھائی کی بندرگاہ پر بحری جہازوں پر لادے جانے والے برآمدی سامان کے ڈھیر۔ فائل فوٹو

چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام پر امریکی تنقید پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ یہ منصوبہ ایشیا، افریقہ اور یورپ کے حصوں کو منسلک کرنے والے تجارتی راستوں کے ایک قدیم نیٹ ورک، شاہراہ ریشم، سے تحریک پا کر شروع کیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے اس منصوبے کو ایک ترقیاتی حکمت عملی کے طور پر فروغ دیا ہے جس میں 150 سے زیادہ ملکوں میں سرمایہ کاری اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے۔

نقادوں کا کہنا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقصد چینی اثر و رسوخ کو فروغ دینا ہے نہ کہ ترقیات کو۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے انتباہ کیا ہے کہ چین کی غیر شفاف سرمایہ کاری ملکوں کو ناقابل برداشت قرضوں کے جال میں پھنسا سکتی ہے۔

بیلٹ اینڈ روڈ انییشیٹو، اس وقت چین کا سب سے پرعزم بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس نے امیر ملکوں سے مالی منافعوں اور غریب ملکوں سے ترقیات کے وعدوں کی وجہ سے نمایاں دلچسپی کو اپنی جانب مبذول کروایا ہے۔

سوئس کنفیڈریشن کے صدر اوئیلی موئررکہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ وہ اگلے سو برسوں میں دنیا بھر میں سرمایہ کاریوں کے لیے اہم ترین پراجیکٹ ہے۔ اس تصور کا یہی تاثر ہے اور میرا خیال ہے کہ دنیا کو کچھ تصورات کی ضرورت ہے۔

فرانس کے سابق وزیراعظم جین پیری ریفرین نے کہا کہ اگر چین اور فرانس اپنے مختلف تجربات کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تو میرا خیال ہے کہ ہم بہت سے ملکوں میں، مثال کے طور پر افریقہ میں بہت سے نئے مواقعوں کے ساتھ نئے پراجیکٹس کو فروغ دے سکتے ہیں۔

حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹونیو گوٹیرس بھی، ایسے میں کہ جب وہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کی تکمیل میں تیزی لانے کی کوشش کر رہے ہیں، چین کے پراجیکٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

بیلٹ اینڈ روڈ کے پانچ ستون، پالیسی میں ربط، تنصیبات کا ارتباط، بلا روک ٹوک تجارت، مالیاتی انضمام، لوگوں کے باہمی تبادلے، بنیادی طور پر پائیدار ترقی کے17 اہداف سے منسلک ہیں۔ یہ وہ تصوراتی ستون ہیں جنہیں تمام لوگوں کی حقیقی ترقی کی شکل دی جا سکتی ہے۔

لیکن ہر ایک اس خیال کا قائل نہیں ہے۔ ان شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ چین ترقی کے بارے میں فکر نہیں کرتا لیکن وہ اپنے عالمی اثر و رسوخ بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بدھ کے روز لندن میں ایک دورے کے دوران چین کو ایک ناقابل اعتماد بزنس پارٹنر قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ چین سیاسی اثر و رسوخ کے بدلے انفرااسٹرکچر کے بد عنوان معاہدوں کو فروغ دیتا ہے۔ اس کی رشوت سے بھری، قرض کے پھندے والی سفارت کاری اچھے انتظام حکومت کو سبو تاژ کرتی ہے اور اس آزاد اقتصادی ماڈل کے لیے خطرہ پیدا کرتی ہے جس پر اتنے بہت سے ملکوں کاانحصار ہے اور جس نے لاکھوں لوگوں کو غربت سے باہر نکالا ہے۔

چین کی وزارت خارجہ نے جمعرات کے روز اس پر ایک برہم رد عمل ظاہر کیا۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے کہا۔’وہ یہ کہتے کہتے نہیں تھکتے، لیکن ہم یہ سنتے سنتے تھک گئے ہیں‘۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے گزشتہ ہفتے بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم کی کامیابی کو سراہا۔

ان کا کہنا تھا کہ 150 ملکوں کے کل 6000 نمائندوں اور 92 بین الاقوامی تنظیموں نے بین الاقوامی تعاون کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ کے دوسرے فورم میں شرکت کی جن میں امریکہ کے50 نمائندے شامل تھے۔

امریکہ اور چین اس وقت سخت تجارتی مذاكرات میں مصروف ہیں لیکن ٹرمپ انتظامیہ چینی درآمدات پر جمعے کے روز سے نئے سخت محصولات عائد کر رہی ہے۔