پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے منگل کے روز کہا ہے کہ وہ مخلوط حکومت کی تشکیل کے لیے ایک باضابطہ معاہدے پر پہنچ گئی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے درمیان ہونے والے باضابطہ معاہدے نے، کئی دن سے جاری غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ کیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کے درمیان اسلام آباد میں تفصیلی ملاقات کے بعد، ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک کو بحران سے نکالنے، معیشت کو سنبھالنے اور ملک میں موجود تقسیم کے خاتمے کے لیے وہ اتحاد میں شامل ہو رہے ہیں۔
بلاول نے تصدیق کی کہ پریس کانفرنس میں ان کے ساتھ شامل سابق وزیراعظم شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے لیے اتحادیوں کے امیدوار ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے والد آصف علی زرداری ملک کے صدر کے عہدے کے لیے اتحاد کی جانب سے امیدوار ہوں گے۔ اور اس پر نواز لیگ نے تعاون کا یقین دلایا ہے۔
SEE ALSO: چین کا پاکستان کے انتخابات پر’محتاط‘ بیان؛ سیاسی جماعتوں پر مل کر کام کرنے کے لیے زوروزارت عظمیٰ کے لیے نواز لیگ کے نامزد امیدوار شہباز شریف نے کہا کہ اگر آزاد ارکان حکومت بنا سکتے اور ان کے نمبر پورے ہوتے تو وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا پسند کرتے لیکن ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے وہ اتحادی حکومت بنا رہے ہیں۔
سابق صدرآصف علی زرداری نے اس موقع پر کہا کہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی اور تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ نواز کے درمیان ہونے والے اس معاہدے نے 8 فروری کے انتخابات کے بعد جو کسی منقسم مینڈیٹ پر منتج ہوئے تھے، دنوں کی غیر یقینی صورتحال اور مذاکرات کا خاتمہ کیا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں سیاسی استحکام نہ آیا تو آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ مشکل ہوگا، فچ کی رپورٹنواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے کہا کہ دونوں جماعتوں کے پاس حکومت بنانے کے لیے نمبرز تھے، اور دوسری چھوٹی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔
مسلم لیگ (ن) 79 نشستوں کےساتھ سب سے بڑی پارٹی ہے اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ انہیں چار دیگر چھوٹی جماعتوں کے اشتراک ساتھ مل کر 264 نشستوں پر مشتمل قانون ساز اسمبلی میں آرام دہ اکثریت حاصل ہے۔
24 کروڑ سے زیادہ آبادی والےجوہری ہتھیاروں سے لیس ملک میں حکومت کی تشکیل میں تاخیر تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے ۔ پاکستان سست شرح نمو اور ریکارڈ مہنگائی، بڑھتے ہوئے عسکریت پسندوں کے تشدد کے درمیان معاشی بحران سے دوچار ہے اور اسے ایک ایسی مستحکم انتظامیہ کی ضرورت ہے جس کے پاس دشوار فیصلے کرنے کا اختیار ہو۔
ایک جانب جہاں حکومت سازی میں تاخیر ہو رہی ہے وہیں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف سندھ اور بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں جب کہ مخصوص نشستوں سمیت انتخابی دھاندلی کے معاملات عدالتوں تک پہنچ گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی کشیدگی اور عدم استحکام سے جمہوریت کے لیے خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق 29 فروری کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانا ہے جس کے بعد نئے وزیر اعظم کے لیے ووٹنگ ہو گی۔
اس سیاسی رسہ کشی کے دوران پاکستان میں ہفتے کے روز سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' کے ڈاؤن ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ صارفین کو ٹوئٹر تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان کی پارٹیاں جلد از جلد حکومت بنانے کے لیے زور دیں گی۔
اس رپورٹ کا کچھ متن رائٹرز کی معلومات پر مبنی ہے۔