صدر جوبائیڈن منگل کے روز قوم سے خطاب کریں گے جس میں وہ دو عشروں تک جاری رہنے والی جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر گفتگو کریں گے، جہاں طالبان اپنی حکومت قائم کرنے والے ہیں۔
پیر کے روز ایک مختصر بیان میں بائیڈن نے کہا کہ وہ اپنے خطاب میں خصوصی طور پر امریکی افواج کے 31 اگست تک انخلا کی حتمی تاریخ میں مزید توسیع نہ کرنےکے اپنے فیصلے سے متعلق اظہار خیال کریں گے۔
کئی ہفتوں تک بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے دیگر ارکان نے مزید مدت تک ٹھہرنے کے امکان پر غور کیا تھا، جس دوران امریکی شہریوں اور افغان سویلینز کے انخلا کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائی کرنے کے چیلنجوں اور فوائد کا جائزہ لیا گیا تھا، ایسے میں جب سیکیورٹی کی نوعیت کے واضح خطرات موجود تھے۔
بائیڈن نے کہا کہ ''جوائنٹ چیفس سمیت سرزمین پر موجود ہمارے کمانڈروں کی یہ متفقہ سفارش تھی کہ طیاروں کے ذریعے انخلا کے مشن کو تجویز کردہ حتمی تاریخ کے اندر ختم کیا جائے''۔
بقول صدر، ''ان کا مؤقف یہ تھا کہ ہماری فوجیوں کی زندگی کے تحفظ اور سویلینز کی بحفاظت روانگی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا عسکری مشن بند کیا جائے، تاکہ وہ لوگ جو آئندہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران افغانستان سے باہر نکلنے کے خواہش مند ہوں انھیں ملک سے باہر لایا جائے۔''
SEE ALSO: امریکی انخلا کے بعد پہلی صبح؛ 'کابل ایئرپورٹ پر رش کم لیکن شہر میں خوف کی فضا ہے'انھوں نے مزید کہا کہ طالبان نے لوگوں کو بحفاظت باہر جانے میں مدد دینے کے عزم کا یقین دلایا ہے اور یقین دہانی کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں دنیا انھیں ذمہ دار قرار دے گی۔
صدر کے سیاسی مخالین اور چند ایک اتحادیوں نے حتمی تاریخ میں توسیع نہ کرنے کے فیصلے پر قائم رہنے پر ان پر تنقید کی ہے۔
افغانستان سے انخلا ایسے مرحلے پر سامنے آیا ہے جب 11 ستمبر 2001 کے امریکہ پر دہشت گرد حملوں کو 20 سال ہونے والے ہیں، ان حملوں کے نتیجے میں امریکہ نے القاعدہ کے خلاف افغانستان فوج روانہ کی۔ القاعدہ نے طالبان جنگجوؤں سے مل کر دہشت گرد حملوں کی منصوبہ سازی کی تھی۔