افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے باوجود پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی تمام سرحدی گزرگاہیں کھلی رکھی ہیں تاہم مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ ایسے میں پاکستان کی بری فوج کی قیادت نے اراکین پارلیمنٹ کو خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال پر پیر کو بریفنگ دی ہے۔
جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں پیر کو منعقد ہونے والی اس بریفنگ کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور دیگر اعلیٰ عسکری حکام نے سیاسی رہنماؤں کو خطے میں بدلتی صورتِ حال پر بریفنگ دی۔
بریفنگ کے لیے جی ایچ کیو آنے والوں میں سینیٹ و قومی اسمبلی کی دفاع کی پارلیمانی کمیٹیاں اور پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے اراکین شامل تھے۔
طالبان کے افغانستان کا انتظام سنبھالنے کے بعد فوجی قیادت کی جانب سے ارکانِ پارلیمنٹ کو دی جانے والی یہ پہلی سیکیورٹی بریفنگ تھی۔
سیاسی و عسکری رہنماؤں کا یہ اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغانستان کی صورتِ حال بحران کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے اور پاکستان کی سیاسی قیادت خطے کی صورتِ حال پر متفقہ پالیسی اپنانے پر زور دے رہی ہے۔
جنرل باجوہ نے بریفنگ کے دوران کہا کہ چیلنجز کے باوجود افغانستان سے ملحقہ ملکی سرحدیں محفوظ ہیں جو کہ بارڈر مینجمنٹ کی کوششوں کے باعث ہوا ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق جنرل باجوہ نے اجلاس کے دوران کہا کہ پاکستان ہر طرح کی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے۔
خیال رہے کہ 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد کی صورتِ حال پر حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے اور درپیش چیلنجز پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس بریفنگ میں شریک سینٹر انوار الحق کاکڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس نشست کا مقصد سیاسی رہنماؤں کو خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال سے آگاہ کرنا تھا تاکہ ان معاملات پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور دنیا کو یہ تشویش ہے کہ افغانستان میں پیدا شدہ انتظامی انخلا غربت و بھوک کو جنم دے گا جو کہ انتہا پسندی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے بتایا کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کے لیے اپنی سرحد بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اقوامِ متحدہ کے قانون کے مطابق سرحد کھولنا اس وقت لازم ہے جب ہمسایہ ملک میں خون ریزی ہو رہی ہو۔
ان کے بقول کابل پر طالبان کا قبضہ جابرانہ ضرور ہے مگر اس دوران خون ریزی نہیں ہوئی۔ لہذا افغان شہریوں کے لیے سرحد کھولنے کا قانونی و اخلاقی جواز نہیں رہتا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سابقہ حکومت میں افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے اور اب کابل میں نئی حکومت کے بعد توقع ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔
افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند کہتے ہیں اس وقت مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستان میں داخل نہیں ہونا چاہتی بلکہ صرف وہ افغان پاکستان آنا چاہتے ہیں جن کے رشتہ دار پہلے سے یہاں مقیم ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سرحد پار سے چند دہشت گردوں کے ممکنہ داخلے کی بنیاد پر افغان سرحد کو مہاجرین کے لیے بند کرنا ان کی نظر میں غیر انسانی عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے فیصلہ ساز ادارے افغان صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے کیوں کہ ان کے بقول یہ وقت افغانستان سے تعلقات خراب کرنے کا نہیں بلکہ بڑھانے کا ہے۔
رستم شاہ مہمند نے مزید کہا کہ عالمی برادری کی اپیل اور سلامتی کونسل کی حالیہ قرارداد کے باوجود اگر پاکستان نے افغان مہاجرین کے لیے سرحد نہ کھولی تو اس کے مضمرات ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی منقسم سلامتی کونسل نے پیر کو طالبان پر زور دیا تھا کہ امریکہ کے فوجی انخلا کے بعد وہ لوگوں کو افغانستان سے باہر جانے کی اجازت دینے کا اپنا وعدہ پورا کریں۔
پاکستان میں پہلے سے 30 لاکھ افغان پناہ گزین آباد ہیں جن میں سے بیشتر 1980 میں سویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد آئے تھے اور ان کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔
افغانستان میں 1990 میں سویت یونین کے انخلا کے بعد خانہ جنگی کے نتیجے میں بھی لاکھوں پناہ گزینوں نے ہمسایہ ملکوں پاکستان اور ایران کا رخ کیا تھا۔
امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے عمل کے دوران ایک مرتبہ پھر افغان باشندوں کی پاکستان ہجرت کرنے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا البتہ ایسا نہیں ہوا۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ تقریباً 2500 کلو میٹر طویل سرحد پر خاردار باڑ لگائی جا رہی ہے جس کا بیشتر کام مکمل ہو چکا ہے اور حکام کی جانب سے اس کا مقصد سیکیورٹی کو درپیش خطرات سے نمٹنا بتایا جاتا ہے۔