افغانستان کے دارالحکومت کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے جب پیر کی شب امریکی ایئر فورس کے طیارے نے اُڑان بھری تو اس کے ساتھ ہی 20 برس تک جاری رہنے والی افغان جنگ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
امریکی انخلا مکمل ہونے کے بعد طالبان نے ایئرپورٹ کا نظام سنبھال لیا ہے جب کہ رات گئے طالبان جنگجو امریکی فوجیوں کے انخلا کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کرتے رہے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ رات بارہ بجے کے بعد امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہو گیا ہے جس کے بعد افغانستان کا مکمل کنٹرول طالبان نے حاصل کر لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں ایئرپورٹ کو مکمل طور پر خالی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک جگہ متعدد ایسے ہیلی کاپٹرز کھڑے ہیں جن کو بظاہر جلدی میں ناکارہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان نے عوام سے متحد رہنے پر زور دیا ہے۔ دوسری جانب شہر میں رش پہلے کی نسبت زیادہ ہو گیا ہے۔
کابل کے رہائشی، حضرت علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ منگل کی صبح مقامی افراد کا رش گزشتہ 15 روز کی نسبت زیادہ ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ رش طالبان کے کابل میں آنے سے پہلے جیسا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ رات گئے طالبان نے امریکی فوج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد ایئرپورٹ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں ہوائی فائرنگ شروع کی جب کہ افغانستان کے دیگر صوبوں سے بھی ایسی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔
حضرت علی کے مطابق فائرنگ اتنی شدید تھی کہ وہ اپنے گھر میں چھپ گئے اور دیگر اہلِ خانہ کو بھی باہر نہ جانے کی تاکید کی۔
اُن کے بقول فائرنگ کا یہ سلسلہ رات 12 بجے سے لے کر صبح چار بجے تک جاری رہا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے آج کچھ ایسی دکانیں بھی کھلتی ہوئی دیکھی ہیں جو طالبان کے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سےپہلی مرتبہ کھلی ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ صورتِ حال آنے والے دنوں میں مزید بہتر ہو جائے گی۔
البتہ کچھ لوگ اب بھی خوف کا شکار ہیں اور گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک میر ویس بھی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حامد کرزئی ایئرپورٹ پر ہونے والے خود کش حملے کے بعد وہ گھر سے باہر نہیں نکل رہے ہیں۔ کیوں کہ مزید دھماکوں کا خدشہ ہر وقت موجود ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ایئرپورٹ پر اس وقت خود کش حملہ ہوا جب ہزاروں کی تعداد میں مسافر ایئرپورٹ پر ملک سے باہر جانے کے لیے قطاروں میں کھڑے تھے۔ اس حملے میں 170 سے زائد افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
اس حملے کی ذمے داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
اگرچہ کابل میں اب حالات آہستہ آہستہ معمول کی جانب بڑھ رہے ہیں تاہم بازاروں میں گہما گہمی زیادہ نہیں ہے۔
حضرت علی کے مطابق اشیائے خورو نوش کی دستیابی میں کوئی خلل نہیں پڑا تاہم قیمتیں ضرور بڑھ گئیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی افغانستان کی درآمدات گزشتہ دو ہفتوں میں کافی متاثر ہوئی ہیں جب کہ دوسرا افغانی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ افغانستان میں بینک بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ مرکزی بینک نے گزشتہ دنوں تمام بینکوں کو فعال ہونے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم منگل کو کابل میں صرف دو بینکوں عزیزی بینک اور اے آئی بی بینک کی ایک شاخ کھلی تھی جن کے سامنے سیکڑوں شہری قطار میں لگے دکھائی دیے۔
نام نہ بتانے کی شرط پر ایک سابقہ بینک اہل کار نے بتایا کہ اگرچہ مرکزی بینک نے بینکوں کو فعال ہونے کا کہا ہے تاہم زیادہ تر بینکوں میں پیسے ہی نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ سینٹرل بینک کی ہدایت پر بینکوں کو کہا گیا تھا کہ ایک اکاؤنٹ ہولڈر کو ہفتے میں دو سو ڈالر سے زائد کی رقم فراہم نہ کی جائے۔