صدر جوبائیڈن نے منگل کے روز اسقاط حمل کے بارے میں امریکی عدالت عظمیٰ کے ججوں کی رائے کے مسودے کو قدامت پسند قرار دیتے ہوئے، تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو 1973ء کے تاریخ ساز ’رو بمقابلہ ویڈ‘ فیصلے کی جگہ لے سکتا ہے، جس کے ذریعے ملک بھر میں اسقاط حمل کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ دھماکے دار خیال کیے جانے والے اس مسودے کی نہ صرف ڈیموکریٹس نے مذمت کی ہے بلکہ چند اعتدال پسند ری پبلیکنز نے بھی اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
عدالت نے اس متن کے مستند ہونے کی تصدیق کی ہے جسے پیر کی شام گئے خبر رساں ادارے ’پولیٹکو ‘نےشائع کیا تھا۔ لیکن، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ججوں کے اس حتمی فیصلے کی نمائندگی نہیں کرتا، جس کا اعلان جون کے اواخر تک کر دیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے ججوں کی آرا کے مسودے سے پتہ چلا ہے کہ نو میں سے پانچ ججوں کی نظر میں ابارشن کے بارے میں قانون سازی کا اختیار ریاستوں کو ہونا چاہے۔ اگر عدالت یہ فیصلہ سنا دیتی ہے جس کا دعوی مسودے میں کیا گیا ہے تو اس کے نتیجے میں نصف صدی سے اسقاط حمل کے حق کو حاصل آئینی تحفظ ختم ہو جائے گا اور ریاستیں اس پر پابندی بھی لگا سکیں گی۔
بائیڈن نے کہا کہ امریکی قانون کے فلسفے کے اعتبار سے یہ ایک بنیادی تبدیلی ہے۔ انھوں نے دلیل دی کہ اس قسم کا فیصلہ صادر کرنے سے دیگر حقوق کے بارے میں بھی سوال اٹھے گا، جس میں ہم جنس پرست شادیاں شامل ہیں، جنہیں ملک کی اعلی ترین عدالت نے 2015ء میں جائز تسلیم کیا تھا۔
اسقاط حمل کے حق کی جانب دھیان مبذول کراتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ اگر یہ قانون کی شکل اختیار کرتا ہے اور یہی تحریر باقی رہتی ہے تو اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے کہ آیا اپنی پسند کے حق کی آزادی کا معاملہ برقرار رہے گا یا اس میں بھی فرق آئے گا؟
بقول ان کے، اس سے دوسرے حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں، جیسا کہ شادی کا حق، ساتھ ہی اس میں کئی ایک معاملات کو طے کرنے کا حق بھی شامل ہے۔
’رو بمقابلہ ویڈ‘ کا فیصلہ امریکی آئین کے تحت کسی خاتون کی جانب سے حمل ضائع کرنے کے حق کو ذاتیات کا حصہ تسلیم کرتا ہے۔