امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اتوار کے روز افغانستان کے طالبان حکمرانوں سے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے اس سول انجنیئر کو رہا کر دیں جنہیں دو سال قبل اغوا کیا گیا تھا اور جن کے متعلق خیال ہے کہ وہ طالبان کے قبضے میں باقی رہ جانے والا واحد امریکی یرغمالی ہے۔
امریکی نیوی کے سابق اہل کار مارک فریچز کی عمر 59 سال ہے اور ان کا تعلق امریکی ریاست الی نوائے کے قصبےلامبرڈ سے ہے۔ انہوں نے لگ بھگ دس سال تک افغانستان میں تعمیراتی پراجیکٹس پر کام کیا۔
انہیں فروری 2020 میں طالبان اور امریکہ کے درمیان امریکی فوج کے انخلاسے متعلق معاہدے پر دستخط ہونے سے ایک ماہ پہلے اغوا کیے جانے کے بعد طالبان کے ایک دھڑے حقانی نیٹ ورک کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
پیر کے روز انہیں قید میں رہتے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں۔
صدر بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ" کسی امریکی یا کسی بے قصور شہری کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا ہمیشہ ناقابل قبول ہے اور کسی کو یرغمال بنانا خاص طور پر سفاکی اور بزدلی کا عمل ہے"۔
بیان میں مزید کہا گیاہے کہ " اس سے قبل کہ طالبان یہ توقع رکھیں کہ ان کی جائز قانونی حیثیت تسلیم کیے جانے کی خواہشات پر غور کیا جائے، انہیں لازماً فوری طور پر مارک کو آزاد کر دینا چاہیے۔ اس پر کوئی گفت و شنید نہیں ہو گی۔"
صدر بائیڈن نے گزشتہ سال اگست میں انتشار کے حالات میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا کیا تھا جس پر انہیں ری پبلکینز اور اپنی پارٹی ڈیموکریٹس کے ارکان کے ساتھ ساتھ اپنے غیر ملکی اتحادیوں کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کی مقبولیت کی سطح میں کمی واقع ہوئی تھی۔
فریچز کا خاندان یہ شکایت کرتا ہے کہ امریکی حکومت مارک کی رہائی کے لیے طالبان پر زیادہ دباؤ نہیں ڈال رہی۔
فریچر کی بہن شارلین کاکورا نے پچھلے ہفتے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں صدر بائیڈن سے ذاتی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ "صدر بائیڈن، برائے مہربانی میرے بھائی گھر واپس لائیں۔ وہ افغانستان میں امریکہ کے آخری یرغمالی ہیں۔"
محکمہ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ ہراجلاس میں فریچر کا معاملہ اٹھایا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نےٹوئٹر پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ہم طالبان سے ان کی رہائی کی اپیل کرتے ہیں۔ ہم انہیں اپنے گھر واپس لانے کے لیے کام جاری رکھیں گے۔"
امریکہ اور طالبان عہدے داروں کے درمیان فوجیوں کے انخلا کے بعد پہلی ملاقات پچھلے سال اکتوبر میں قطری حکومت کی میزبانی میں قطر کے شہر دوحہ میں ہوئی تھی۔
( خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)