رسائی کے لنکس

مشیرِ قومی سلامتی کا دورۂ افغانستان: کیا ٹی ٹی پی کے حملے بند ہونے کا امکان ہے؟


مبصرین کا کہنا ہے پاکستان کے نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے قومی سلامتی کے مشیر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بڑھتے ہوئے حملوں اور سرحد پر باڑ کی تنصیب پر طالبان کی اعلیٰ قیادت سے تبادلۂ خیال کریں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے پاکستان کے نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے قومی سلامتی کے مشیر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بڑھتے ہوئے حملوں اور سرحد پر باڑ کی تنصیب پر طالبان کی اعلیٰ قیادت سے تبادلۂ خیال کریں گے۔

پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف ایک بین الوزارتی کمیٹی کی قیادت کرتے ہوئےافغانستان پہنچ گئے ہیں۔

اپنے اس دورے کے دوران وہ اعلیٰ افغان حکام کے ساتھ دو طرفہ امور کے علاوہ افغانستان میں انسانی بحران میں ضروریات سے متعلق بھی بات چیت کریں گے۔

مبصرین کا کہنا ہے پاکستان کے نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے قومی سلامتی کے مشیر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بڑھتے ہوئے حملوں اور سرحد پر باڑ کی تنصیب پر طالبان کی اعلیٰ قیادت سے تبادلۂ خیال کریں گے۔

کابل کی کاردان یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کے سابق سربراہ فہیم سادات کا کہنا ہے کہ طالبان کا کابل کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے پاکستان افغانستان کی سرحد پر،جسے ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے، طالبان کی جانب سے باڑ اکھاڑنے کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فہیم سادات کا کہنا تھا کہ معید یوسف طالبان رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقات میں یہ جانچنے کی کوشش کریں گے کہ اس حوالے سے طالبان کی اعلیٰ قیادت اور مقامی کمانڈروں کی سوچ اور پالیسی میں کتنی مماثلت ہےیا مقامی کمانڈروں کے نظریات باڑ اکھاڑنے کے حوالے سے اعلیٰ قیادت کی سوچ سے مطابقت رکھتے بھی ہیں یا اس میں فرق ہے؟

یاد رہے کہ پاکستان کی جانب سے عسکری اور سول قیادت نے باڑ اکھاڑنے کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔

رواں ماہ کے شروع میں پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے 2600 کلومیٹر باڑ لگانے کا مقصد سرحد پار سے عسکریت پسندوں کی نقل و حمل اور دہشت گردی کی کارروائیاں روکنا ہے۔

دوسری جانب گزشتہ سال نو دسمبر کو ٹی ٹی پی نے حکومت کے ساتھ ایک ماہ کی جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ٹی ٹی پی سیکیورٹی فورسز کے خلاف 50 سے زائد حملوں کا دعویٰ کر چکی ہے۔

یاد رہے کہ افغان طالبان پاکستان کی سرحد پر باڑ اکھاڑنے کے واقعات کو مقامی سطح کی چپقلش قرار دیتی ہے۔

افغان نیشنل ٹیلی وژن ’آر ٹی اے‘ کو ایک انٹرویو کے دوران طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے یہ واضح کیا تھا کہ نچلی سطح پر کبھی کبھار ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں تاہم اعلیٰ سطح کی قیادت ان معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہاں ہے۔

گزشتہ سال اگست میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کابل کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اس سے قبل وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان کا دورہ کیا تھا۔

افغانستان کی ’پژواک نیوز ایجنسی‘ کے سینئر ایڈیٹر مدثر شاہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کی سرحد پر باڑ لگانے کی ہمیشہ سے ہی مخالفت کی جاتی رہی ہے اور یہ کوئی بدلنے والی چیز نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پاکستان کی حکومت طالبان کی گزشتہ حکومت میں بھی سرحد پر باڑ لگانے کے معاملے پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں میں بھی باڑ کی تنصیب کے حوالے سے شدید مخالفت سامنے آئی تھی۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ افغانستان نے کبھی بھی ڈیورنڈ لائن کو ایک مستقل سرحد نہیں مانا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان حکومت شروع سے ہی اس علاقے کو متنازع علاقہ قراردیتی رہی ہے۔

افغانستان: 'بے جان مجسموں کے بھی سر قلم ہو رہے ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:21 0:00

مدثر شاہ کے مطابق طالبان کی اعلیٰ قیادت باڑ اکھاڑنے کے حوالے سے رسمی جوابات دے دیتی ہے تاہم عملی طور پر انھوں نے کوئی اقدامات نہیں کیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سرحد پار سے پاکستان کے اندر کارروائیاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہی ہیں اور تا حال پاکستان اور افغانستان کے حکام اس حوالے سے کسی ہم آہنگی پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ قبل ازیں خیبر پختونخوا سے متصل علاقے ہی دہشت گردوں کے نشانہ پر تھے تاہم اب گزشتہ دو دن سے صوبۂ بلوچستان میں بھی شدت پسندوں کی کارروائیاں تیز ہو گئی ہیں۔

ان کے مطابق ایسے میں پاکستان کی یہ شدید خواہش ہو گی کہ طالبان کو باور کرا سکیں کہ ان کے علاقے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے واقعات میں استعمال نہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے ہمیشہ سے ہی پاکستان کو باور کرانے کی کوشش کی کہ ٹی ٹی پی افغان سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کر سکتی جب کہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور ٹی ٹی پی کے جنگجو پاکستان کے مختلف صوبوں خصوصاً ان صوبوں اور اضلاع میں رہتے ہیں جو کہ پاکستانی سرحد کے نزدیک ہیں اور وہاں سے اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔

کابل ائیر پورٹ پر بچھڑنے والا بچہ خاندان کو مل گیا
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:16 0:00

ان کے بقول اس لیے اب ان تمام امور کا تفصیلی جائزہ لینا ہو گا کہ طالبان کے وعدے پر عمل درآمد کتنا ہوا ہے اور وہ کتنا سنجیدہ ہیں۔ پاکستانی طالبان ایک عرصے سے افغانستان میں مقیم ہیں اور وہ سرحد پار کارروائیاں کرتے ہیں۔

مدثر شاہ کا مزید کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ دورہ ایک فنس بلڈنگ ایکسرسائز ہے۔ لیکن اگر دونوں اطراف کی پوزیشن کو دیکھا جائے تو اس میں مطابقت نہیں ہے۔ اس حوالے سے انھیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ سرحد پار سے ٹی ٹی پی کی کارروائیاں اور ڈیورنڈ لائن کا جتنا حصہ باڑ لگنے سے رہتا ہے ان دونوں پر پروگریس ہوتی نظر نہیں آتی۔

XS
SM
MD
LG